Monday, 29 July 2019

Jaan say peyara koi ( Someone Love you )


غزل

نہ وہ ملتا ہے نہ ملنے کا اِشارہ کوئی
کیسے اُمید   کا    چمکے گا   ستارہ   کوئی

حد سے زیادہ نہ کسی سے محبت کرنا
جان لیتا ہے سدا ، جان سے پیارا کوئی

بے وفائی کے سِتم  تم کو سمجھ آ جاتے
کاش! تم جیسا اگر ہوتا تمھارا کوئی

چاند نے جاگتے رہنے کا سبب پوچھا ہے
کیا کَہیں ٹُوٹ گیا خواب ہمارا کوئی

سب تعلق ہیں ضرورت کے یہاں پر مُحسنؔ
نہ کوئی دوست ، نہ اپنا، نہ سہارا کوئی

مُحسن نقوی




Wednesday, 17 July 2019

Silsilay Wafa Kay (Chain of fame )


غزل

ہم سلسلے جو وفا کے رکھتے ہیں
تو حوصلے بھی انتہا کے رکھتے ہیں

ہم کبھی بد دُعا نہیں دیتے
ہم سلیقے دُعا  کے رکھتے ہیں

اُن کے دامن بھی جلتے دیکھے ہیں
وہ جو دامن بچا  کے رکھتے ہیں

ہم نہیں ہیں  شکست کے قائل
ہم سفینے  جلا کے رکھتے ہیں

جس کو جانا ہے وہ چلا جائے
ہم دئیے سب بجھا کے رکھتے ہیں

ہم بھی کتنے عجیب ہیں مُحسن
درد کو دل میں چُھپا کے رکھتے ہیں

مُحسن نقوی


Friday, 5 July 2019

Kabhi Khud pay Kabhi Halaat pay ( Sometimes there is a situation in the world )


غزل

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر بات   پہ  رونا آیا

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں اُن کو
کیا ہوا آج  یہ کس بات پہ رونا آیا

کس لیے جیتے ہیں، ہم کس لیے جیتے ہیں
بارہا  ایسے  سوالات  پہ رونا آیا

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات  پہ رونا آیا

ساحرؔ لد ھیانوی


Wednesday, 3 July 2019

Tum Itna jo Muskra rahay ho ( You are so smiling )


غزل

تم اِتنا جو  مُسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جِس کو چھپا رہے ہو

آنکھوں میں نمی، ہنسی  لبوں پر
کیا حال ہے، کیا دِیکھا رہے ہو

بن جائیں گے  زہر پیتے پیتے
یہ اشک جو  پیتے جا رہے ہو

جِن زخموں کو وقت بھر چلا ہے
تم کیوں اِنہیں چھیڑ ے جا رہے ہو

ریکھاؤں کا  کھیل ہے  مُقدر
ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

کیفیؔ اعظمی



Monday, 1 July 2019

Hum teri baat kia kartay ( Your Talk only )


غزل

جب تیری دُھن میں جیا کرتے تھے
ہم بھی چُپ چاپ پھرا کرتے تھے

آنکھوں میں پیاس ہُوا کرتی تھی
دل میں طوفان  اُٹھا  کرتے تھے

لوگ آتے تھے غزل  سننے کو
ہم تیری  بات  کیا کرتے تھے

کسی ویرانے میں تجھ سے  مل کر
دِل میں  کیا پھول  کِھلا کرتے تھے

گھر کی دیوار  سجانے  کے  لئے
ہم تیرا نام  لکھا  کرتے تھے

وہ بھی کیا دِن تھے بُھلا کر تجھ کو
ہم  تجھے یاد کیا  کرتے  تھے

جب تیرے درد سے دِل دُکھتا تھا
ہم تیرے حق میں دُ عا کیا کرتے تھے

کل تجھے دیکھ کر  یاد  آیا
ہم سُخنور بھی ہوا کرتے تھے

محسن نقوی



Eshara Kar Kay ( Love signal )


غزل

باتوں باتوں میں بچھڑ نے کا اشارہ کرکے
خود بھی رُویا وہ بہت ہم سے کنارہ کرکے

سوچتا رہتا ہوں، تنہائی میں انجامِ خلوص
پھر اُسی ،، جُرمِ محبت کو ،، دوبارہ کرکے

جگمگا دی ہیں تیرے شہر کی گلیاں میں نے
اپنے ہر اشک کو ،، پلکوں پہ ستارہ کرکے

دیکھ لیتے ہیں، چلو ،، حوصلہ اپنے دِل کا
اور کُچھ روز ،، تیرے ساتھ گُزارہ کر کے

ایک ہی شہر میں رہنا ہے، مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں، یہ اذیت بھی گوارہ کر کے

اعتبار ساجدؔ


Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے