غزل
باتوں باتوں میں بچھڑ نے کا
اشارہ کرکے
خود بھی رُویا وہ بہت ہم سے
کنارہ کرکے
سوچتا رہتا ہوں، تنہائی میں
انجامِ خلوص
پھر اُسی ،، جُرمِ محبت کو
،، دوبارہ کرکے
جگمگا دی ہیں تیرے شہر کی
گلیاں میں نے
اپنے ہر اشک کو ،، پلکوں پہ
ستارہ کرکے
دیکھ لیتے ہیں، چلو ،،
حوصلہ اپنے دِل کا
اور کُچھ روز ،، تیرے ساتھ
گُزارہ کر کے
ایک ہی شہر میں رہنا ہے،
مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں، یہ اذیت بھی
گوارہ کر کے
اعتبار ساجدؔ
No comments:
Post a Comment