غزل
بہت پہلے سےاُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی
ہم دُور سے پہچان لیتے
ہیں
مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی
جو جان و ایمان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری
یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ اُلفت میں
ہم اپنے سر ترا
اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان
لیتے ہیں، کبھی پہچان لیتے ہیں
فراقؔ گورکھپوری
No comments:
Post a Comment