Wednesday, 21 August 2019

Naaz hai Dilldari Per ( consolation on heart )



غزل

دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ  اب  وہ  بھی  اُتر  آیا ہے  اداکاری  پر

میں نے  دُشمن کو جگایا تو  بہت تھا  لیکن
احتجا جاً  نہیں  جاگا میری  بیداری پر

آدمی  ،آدمی کو  کھائے چلا  جاتا ہے 
کچھ تو تحقیق کرو اِس  نئی  بیماری پر

 کبھی  اِس جرم  پہ سر کاٹ  دیئے جاتے تھے
اب  تو اِنعام  دیا جاتا  ہے غدّاری پر

تیری قُربت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے مجھ  میں
اِس قدر سہل نہ ہو تو مری دُشواری  پر

کوئی دیکھے  بھرے  بازار کی ویرانی  کو
کچھ نہ  کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر

بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اُتر آئے ہیں ظا لم کی طرفداری  پر

سلیم کوثرؔ 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے