غزل
نہ ملتا غم
تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے
اگر دُنیا چمن
ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا
اپنوں میں کوئی غیر تو نکلا
اگر ہوتے سبھی
اپنے تو
بیگانے کہاں جاتے
دُعا ئیں دو
محبت ہم نے مٹ کر تم کو سکھلا دی
نہ جلتی شمع
محفل میں تو پروانے کہاں جاتے
تم ہی نے غم کی
دولت دی، بڑا احسان فرمایا
زمانے بھر کے
آگے ہاتھ پھیلانے کہاں جاتے
شکیل بدایونی
No comments:
Post a Comment