غزل
ملال ہے
مگر اِتنا ملال تھوڑی ہے
یہ آنکھ رونے کی
شدّ ت سےلال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے
ہی فکر مند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی
کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ
دیا ہے اُڑان سے پہلے
یہ خوفِ ہجر ہے
شوقِ وصال تھوڑی ہے
مزا تو تب ہےکہ ہار کر بھی ہنستے رہو
ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے
لگانی پڑتی ہے
ڈبکی اُبھرنے سے پہلے
غُروب ہونے کا
مطلب زوال تھوڑی ہے
No comments:
Post a Comment