Thursday, 12 September 2019

Khabar Rakhta tha ( Was aware everyone )


غزل

بے خبر  سا تھا مگر  سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب  و ہُنر رکھتا تھا

لا تعلق  نظر آتا تھا  بظا ہر لیکن
بے نیازانہ ہر اک دل میں گُزر رکھتا تھا

اُس کی نفرت کا  بھی معیار  جدا تھا سب سے
وہ الگ اِک اندازِ نظر رکھتا تھا

بے یقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند
شب نثرادوں سے بھی اُمیدِ سحر رکھتا تھا

مشورے کرتے ہیں جو گھر کو سجانے کے لئے
اُن سے کیسے میں کہوں میں بھی گھر   رکھتا تھا

اُس کے ہر  وار کو سہتا رہا  ہنس کر مُحسنؔ
یہ تاثر نہ دیا ، میں بھی سپر  رکھتا تھا

مُحسنؔ نقوی




No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے