غزل
تیری ہر بات
محبت میں گوارہ کر کے
دِل کے بازار
میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
آتے جاتے ہیں
کئی رنگ میرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں
مزا ذِکر تمھارا کرکے
ایک چنگاری نظر
آئی تھی بستی میں اُسے
وہ الگ ہٹ گیا
آندھی کو اِشارہ کرکے
آسمانوں کی طرف
پھینک دیا ہےمیں نے
چند مٹی کے
چراغوں کو ستارہ کر کے
میں وہ دریا ہوں
کہ ہر بوند بھنور ہے جس میں
تم نے اچھا ہی
کیا مجھ سے کنارہ کرکے
مُنتظر ہوں کہ
ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ
بُلا لوں گا اِشارہ کرکے
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment