غزل
دیکھا پلٹ کے
اُس نے حسرت اُسے بھی تھی
ہم جس پہ مٹ گئے تھے مُحبت اُسے بھی تھی
چُپ ہوگیا تھا دیکھ کر وہ بھی اِدھر اُدھر
دُنیا سے میری
طرح ، شکایت اُسے بھی تھی
یہ سوچ کر
اندھیرے گلے سے لگا لیئے
راتوں کو جاگنے
کی عادت اُسے بھی تھی
وہ رُ و رہا تھا
مُجھ کو پریشان دیکھ کر
اُس دن حالانکہ
میری ضرورت اُسے بھی تھی
اُن پتھروں کے
ساتھ نبھانی پڑی اُسے
جن سے فقط مجھے
نہیں، نفرت اُسے بھی تھی
No comments:
Post a Comment