Monday, 20 January 2020

Dill say bholaun kaisay ( How to forget the heart )


غزل

ٹوٹ جائےنہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے لوگوں کوسناؤں کیسے

خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو زمانے سے چھپاؤں کیسے

تیری صورت ہی میری آنکھ کاسرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگا ہوں کو ہٹاؤں کیسے

تو ہی بتلا میری یادوں کو بُھلا نے والے
میں تیری یاد کو اِس دل سے بُھلاؤں کیسے

پھول ہوتا تو تیرے در پہ بھی  سجا رہتا
زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے

آئینہ ماند پڑے سانس بھی لینے سے عدیمؔ
اتنا نازک ہو تعلق تو نبھاؤں کیسے

وہ رُلاتا ہے رُلائے مجھے جی بھر کے عدیمؔ
میری آنکھیں ہے وہ میں اُس کو رُلاؤں کیسے

عدیمؔ ہاشمی



Thursday, 16 January 2020

Gham e Hayaat ( Sorrow of life )


غزل

غمِ حیات کا جھگڑا مِٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کے دُنیا سے جا رہا ہے کوئی

ازل سے کہہ دو کہ رُک جائے دو گھڑی
سُنا ہے آنے کا وعدہ  نبھا رہا ہے کوئی

وہ اِ س ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے روٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی

پلٹ کر نہ آجائے سانس نبضوں میں
اتنے حسِین ہاتھوں سے میت  سجا رہا ہے کوئی

ائے خُدا دو پل کو مہلت اور دےدے
میری قبر سے مایوس جا رہا ہے کوئی

احمد فرازؔ


Tuesday, 14 January 2020

Dill say uttar jai ga ( Heart will descend )


غزل

آنکھ سے دُور نہ ہو، دِل سے اُتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے، گزر جائے گا

اتنا مانوس نہ ہو خلوت ِ غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو  ڈر جائے گا

 ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو  اُچھالا دے دوں
میں نہیں  کوئی تو ساحل پہ اُتر جائے گا

زندگی تری عطا ہے تو یہ  جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا

ضبط  لازم ہے مگر دُکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب بھی نہیں روئے گا تو مر جائے گا




Wednesday, 8 January 2020

Apni zaat say gai ( Went from your own )


غزل

سکوں کے دِن سے، فراغت کی رات سے بھی گئے
تجھے گنوا کے ، بھری کائنات سے بھی گئے

جدا ہوئے تھے، مگر دل کبھی نہ ٹوٹا تھا
خفا ہوئے، تو تیرے التفات سے بھی گئے

چلے تو نیل کی گہرائیاں تھیں آنکھیں  میں
پلٹ کے آئے، تو موجِ فرات   سے بھی گئے

خیال تھا کہ تجھے پا کر خود کو ڈھونڈیں گے
تو مل گیا  ،تو خود اپنی ذات سے بھی گئے

بچھڑ کے خط بھی نہ لکھے، اُداس یاروں نے
کبھی کبھی کی ، ادھوری  بات  سے بھی گئے



Saturday, 4 January 2020

Baant laitay hain ( The trade of lovers)

غزل

چلو اب ایسا کرتے ہیں، ستارے بانٹ لیتے ہیں
ضرورت کے مطابق ہم، سہارے بانٹ لیتے ہیں

محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں، خسارے بانٹ لیتے ہیں

اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پر قدم رکھ  کر
ابھی دریائے اُلفت کے کنارے  بانٹ لیتے ہیں

میری جھولی میں جتنے بھی وفا کے پھول ہیں اُن کو
اکٹھے  بیٹھ کر سارے کے سارے  بانٹ لیتے ہیں

محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیضؔ
اِسی دولت کو ہم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں


Acha nahi kartay ( Leave me alone )


غزل

اکیلے چھوڑ جاتے ہو، یہ تم اچھا نہیں کرتے
ہمارا دِل جلاتے ہو، یہ تم اچھا نہیں کرتے

کہا  بھی تھا یاری ہے یاری ہی رکھو اِس کو
تماشہ جو بناتے  ہو، یہ تم اچھا نہیں کرتے

اُٹھاتے ہو سرِ محفل فلک تک تم ہمیں لیکن
اُٹھا کر جو گِراتے  ہو، یہ تم اچھا نہیں کرتے

کوئی جو پوچھ لے تم سے، رشتہ کیا ہے ہم سے
تو نظروں کو جھکاتے ہو، یہ تم اچھا نہیں کرتے

بکھر جائیں اندھیروں میں،سہارہ تم ہی دیتے ہو
مگر پھر چھوڑ دیتے ہو،   یہ تم اچھا نہیں کرتے



Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے