غزل
ٹوٹ جائےنہ بھرم
ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے
لوگوں کوسناؤں کیسے
خشک آنکھوں سے
بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو
زمانے سے چھپاؤں کیسے
تیری صورت ہی
میری آنکھ کاسرمایہ ہے
تیرے چہرے سے
نگا ہوں کو ہٹاؤں کیسے
تو ہی بتلا میری
یادوں کو بُھلا نے والے
میں تیری یاد کو
اِس دل سے بُھلاؤں کیسے
پھول ہوتا تو
تیرے در پہ بھی سجا رہتا
زخم لے کر تیری
دہلیز پہ آؤں کیسے
آئینہ ماند پڑے
سانس بھی لینے سے عدیمؔ
اتنا نازک ہو
تعلق تو نبھاؤں کیسے
وہ رُلاتا ہے
رُلائے مجھے جی بھر کے عدیمؔ
میری آنکھیں ہے
وہ میں اُس کو رُلاؤں کیسے
عدیمؔ ہاشمی