مجبوری
تجھے میں بُھول
تو جاتا
مگر تیرے
تعلق سے
جو چہرے سامنے
آئے
جوراستے سامنے آئے
جو لمحے سامنے آئے
جو رشتے سامنے آئے
اُنہیں کیسے
بُھلاتا میں
تجھے کیسے
بُھلاتا میں
اعتبار ساجدؔ
مجبوری
تجھے میں بُھول
تو جاتا
مگر تیرے
تعلق سے
جو چہرے سامنے
آئے
جوراستے سامنے آئے
جو لمحے سامنے آئے
جو رشتے سامنے آئے
اُنہیں کیسے
بُھلاتا میں
تجھے کیسے
بُھلاتا میں
اعتبار ساجدؔ
غزل
دل کبھی صورتِ
حالات سے باہر نہ گیا
میں کبھی محبت
میں اوقات سے باہر نہ گیا
اک تو ہے کہ
جہاں بھر سے تعلق تیرا
اِک میں کہ تیری
ذات سے باہر نہ گیا
سوچ کوئی نہ تیری سوچ سے ہٹ کر سوچی
تذکرہ کوئی بھی
تیری بات سے باہر نہ گیا
مرحلہ تجھ سے
جُدائی کابھی آ پہنچا ، مگر
میں ابھی پہلی ملاقات
سے باہر نہ گیا
آؤ سورج کو
بتاتے ہیں تمازت کیا ہے
چاند کیا جانے ،
وہ خُود رات سے باہر نہ گیا
محبت
جن سے ہوتی ہے،اُن کی شکایت مار دیتی ہے
نفر
ت میں کو ئی نہیں مرتا، محبت مار دیتی ہے
سمجھ
آتی ہے مجھ کو لوگوں کے رویوں کی لہجوں کی
چُپ
رہتا ہوں میں عادلؔ ، شرافت مار دیتی ہے
میری
زندگی کی کتاب میں
تیرا
نام لکھا ہر باب میں
جو
نشہ ہے تیری ذات میں
نہیں
ملا ہمیں کسی شراب میں
عادلؔ
مٹی
ہے نہ تو سونا ہے
تیرا
ہونا بھی کیا ہونا ہے
مُنکر
ہے جو تیری ذات کا
اُس
کا ہونا بھی نہ ہونا ہے
عادلؔ
زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے
ہر لمحہ ہر حساب میں خسارہ ہی خسارہ ہے
عبادت جو کرتے ہیں عادل ؔجنت کی چاہ میں
اُن کے اِس ثواب میں خسارہ ہی خسارہ ہے
عادلؔ
غزل وقت نے جو کیٔے ستِم ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم بہار بھی خزاں لگے جب سے ہوے جدا صنم کس کو دِکھاؤں داغِ دل کوئی نہیں میرا ہمدم ...