غزل
تو سمجھتا ہے
تیرا ہجر گوارا کر کے
بیٹھ جائیں گے
محبت سے کنارہ کر کے
خودکشی کرنے
نہیں دی تیری آنکھوں نے مجھے
لوٹ آیا ہوں میں
دریا کا نظارہ کر کے
جی تو کرتا ہے
اُسے پاؤں تلے روندنے کو
چھوڑ دیتا ہو
مقدر کا ستارہ کر کے
کرنا ہو ترکِ
تعلق تو کچھ ایسے کرنا
ہم کو تکلیف نہ
ہو ذکر تمہارا کر کے
اِس لیے اُس کو
دلاتا ہوں میں غصہ تابشؔ
تا کہ دیکھوں
میں اُسے اور بھی پیارا کر کے
تابشؔ
No comments:
Post a Comment