Saturday, 16 November 2024

Waqt kay sitam ( The tyranny of time)

غزل

وقت نے جو کیٔے ستِم

ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم


بہار بھی خزاں لگے

جب سے ہوے جدا صنم


کس کو دِکھاؤں داغِ دل

کوئی نہیں  میرا ہمدم


کانٹوں سے کو ئی گلہ نہیں

ہمیں د ئیے پھولوں نے زخم


دونوں مجھے عزیز ہیں

تیرا ِِستم  تیرا                     کرم


نقش ہیں  دل پر میرے

آج  بھی یادوں کے قدم


یہ زندگی ہے عادؔل یا تیری

اُ لجھی ہو ئی  زُلفوں کے خَم






 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے