غزل
تمام عمر ہر صبح
کی آذان کے بعد
اِک امتحان سے گذرا، اِک امتحان کے بعد
خُدا کر ے کہ
کہیں اور گردشِ تقدیر
کسی کا گھر نہ اُجاڑے مِرے مکان کے بعد
دَھرا ہی کیا ہے
مِرے پاس نذر کرنے کو
تیرے حضور مِری
جان، میری جان کے بعد
یہ راز اُس پہ
کھلے گا جو خود کو پہچا نے
کہ اِک یقین کی
منزل بھی ہے گمان کے بعد
یہ جُرم کم ہے
کہ سچائی کا بھرم رکھا
سزا تو ہونی تھی
مجھ کو مِرے بیان کے بعد
مِرے خُدا اِسے
اپنی امان میں رکھنا
جو بچ گیا ہے
مِرےکھیت میں لگان کے بعد
ساقی امروہی
No comments:
Post a Comment