نہیں
نہیں ،میں نہیں ہوں
تو
ہی تو ہے، میں نہیں ہوں
ہے
بظاہر وجود میرا عادلؔ
میں نہیں ہوںتو ہے موجود
نہیں
نہیں ،میں نہیں ہوں
تو
ہی تو ہے، میں نہیں ہوں
ہے
بظاہر وجود میرا عادلؔ
میں نہیں ہوںتو ہے موجود
اکھین
کنّے دور ہے، دل کنّے گیا نہیں
دِل
مجبور ہے، ہالے تک بُھلیا نہیں
توں
مِل ویجیں ہاں، زندگی بن ونجیں ہا
عمر
اِویں گذاری ہے، ہالے تک جیا نہیں
غزل
کشتی چلا رہا ہے
مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈوب
جائیں کہیں نا خُدا کے ساتھ
دِل کی طلب پڑی
ہےتو آیا ہے یاد اب
کے ساتھ
جب سے چلی ہے
آدم و یزداں کی داستاں
ہر با وفا کا
ربط ہے اِک بے وفا کے ساتھ
پیرِ مُغاں سے
ہم کو کوئی بیر تو نہیں
تھوڑا سا
اِختلاف ہے مردِ خدا کے ساتھ
شیخ اور بہشت
کتنے تعجب کی بات ہے
یارب یہ ظلم
خُلد کی آب و ہوا کے ساتھ
پڑھتا نماز میں
بھی ہوں پر اتفاق سے
کے ساتھاُٹھتا ہوں نصف رات کو دِ ل کی صدا
محشر کا خیر کچھ
بھی نتیجہ ہو اے عدمؔ
کچھ گفتگو تو
کُھل کے کریں گے خُدا کے ساتھ
عبدالحمید عدمؔ
خاک اُٹھتی ہے
رات بھر مجھ میں
کوئی پھرتا ہے
دَر بدر مجھ میں
مجھ کو مجھ میں
جگہ نہیں ملتی
تو ہے موجود اِس
قدر مجھ میں
محبت
اُسے کہنا محبت
دِل کے تالے توڑ دیتی ہے
اُسے کہنا محبت دو دِلوں کوجوڑ دیتی ہے
اُسے کہنا محبت
نام ہے رُوحوں کے ملنے کا
اُسے کہنا محبت
نام ہے زخموں کے سِلنے کا
اُسے کہنا محبت
تو دِلوں میں روشنی بھر دے
اُسے کہنا محبت
پتھروں کو موم سا کر دے
اُسے کہنا محبت
دُور ہے رَسموں رِوجوں سے
اُسے کہنا محبت
ماورا تختوں سے تاجوں سے
اُسے کہنا محبت
پُھول کلیاں اور خُوشبو ہے
اُسے کہنا محبت
چاند تارے اور جگنوہے
اُسے کہنا محبت
کا نہیں نعم البدل کوئی
اُسے کہنا محبت
کا نہیں ہے ہم شکل کوئی
اُسے کہنا محبت
پر یقیں کر لو میرے ہمدم
اُسے کہنا محبت
دِل میں تم بھر لو میرے ہمدم
اُسے کہنا محبت
نام ہے ساتھ جینے اور مرنے کا
اُسے کہنا محبت
نام ہے دو رُوحوں کے ملنے کا
وفائیں کب بدلتی
ہیں؟
وفا کے قید
خانوں میں
سزائیں کب بدلتی
ہیں؟
بدلتا دِل کا
موسم ہے
ہوائیں کب بدلتی
ہیں؟
میری ساری
دُعائیں
تم سے ہی منسوب
ہیں ہمدم
محبت ہو اگر سچی
دُعائیں کب
بدلتی ہیں؟
کوئی پا کر
نبھاتا ہے
کوئی کھو کر
نبھاتا ہے
نئے انداز ہوتے
ہیں
وفائیں کب بدلتی
ہیں؟
غزل
ذرا سی ٹھیس پہ
منظر کو دو سے چار کرے
اب آئینے پہ
بھلا کون اعتبار کرے
بشر کو لوٹنے
کےاور سو طریقے ہیں
اُسے کہو کہ
محبت کو نہ داغ دار کرے
یہی ہے آج بھی
اُمت کی جیت کا نسخہ
خُدا کے دین پہ
دُنیا کو اُستوار کرے
ہم ایسے
گُل پہ دل و جاں نثار کر آئے
خزاں کو اپنے
تبسم سے جو بہار کرے
رہِ خلوص میں
عطرِ وفا لیئے فرحانؔ
کوئی تو ہو جو
ہمارا بھی انتظار کرے
فرحان عباس بابر
زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...