Friday, 19 October 2018

Ankhoon mai Raha ( In My Hreart )

غزل

آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا

کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں

تم نے میرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا

جس دن سے چلا ہوں میری منزل پہ نظر ہے

آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں

جس ہاتھ نے اب تک کوئی زیور نہیں دیکھا

پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے والا


میں موم ہوں اُس نے مجھے چُھو کر نہیں دیکھا

بشیر بدر




No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے