غزل
دیارِ
دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا
نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دِکھا گیا
جدائیوں
کے زخم دردِ زندگی نے بھر دئیے
اُسے
بھی نیند آگئی، مجھے بھی صبر آ گیا
وہ
دوستی تو خیر اب نصیبِ دُشمناں ہوئی
وہ
چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لُطف بھی چلا گیا
پُکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئی وہ صحبتیں
زمیں
نگل گئی اُنھیں کہ آسمان کھا گیا
یہ
کس خوشی کی ریت پرغموں کو نیند آگئی
وہ
لہر کس طرف گئی،یہ میں کہاں آ گیا
گئے
دِنوں کی لاش پڑے رہو گے کب تلک
الم
کشو اُٹھوکہ آفتاب سر پر آ گیا
ناصر
کاظمی
No comments:
Post a Comment