Tuesday, 10 December 2019

Shakeel Badayouni Poetry


غزل

اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام اُمیدوں  میں گذر جاتی ہے
آج کُچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

کبھی تقدیر کا ماتم، کبھی دُنیا کا گلہ
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا

مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلہ ء نوحہ گری
اِس قدر گردشِ ایّام پہ رونا آیا

جب ہوا ذِکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے  دلِ  ناکام پہ رونا آیا


غزل

کسی کو جب نگا ہوں کے مقابل دیکھ لیتا ہوں
تو پہلے سر جھکا کے حالتِ دل دیکھ لیتا ہوں

مال جستجو ئے ذوق کامل  دیکھ لیتا ہوں
اُٹھائے ہی قدم آثار منزل دیکھ لیتا ہوں

میں تجھ سے اور لطفِ خاص کا طالب معاذاللہ
ستم گر اِس بہانے سے ترا دل دیکھ لیتا ہوں

جو موجیں خاص کر چشم و چراغِ دام طوفاں ہیں
میں اِن موجوں کو ہم آغوش ساحل دیکھ لیتا ہوں

شکیلؔ احساس ہے مجھ کو ہر اِک موزوں طبیعت کا
غزل پڑھنے سے پہلے رنگِ محفل دیکھ لیتا ہوں




غزل

تیری محفل سے اُٹھ کرعشق کے ماروں پہ کیا گذری
مُخالف اِک جہان تھا جانے بیچاروں پہ کیا گذری

سحر کو رُخصتِ بیمار فرقت دیکھنے والو
کسی نے یہ بھی دیکھا رات بھر تاروں پہ کیا گذری

سُنا ہے زندگی ویرانیوں نے لُوٹ لی مل کر
نہ جانے زندگی کے ناز برداروں پہ کیا گذری

ہنسی آئی تو ہے بے کیف سی لیکن خُدا جانے
مجھے مسرور پا کر میرے غم خواروں پہ کیا گذری

اسیرِ غم تو جان دے کر رہائی پا گیا لیکن
کسی کو کیا خبر زِندان کی دیواروں پہ کیا گذری

شکیلؔ بدایونی



غزل

رازِ وفائے ناز پھر دِل کو بتا گیا کوئی
جیسے مُراد واقعی عشق میں پا گیا کوئی

سینے میں روح دردِ دل بن کے سما گیا کوئی
ویسے ہی درد کم نہ تھا اور بڑھا گیا کوئی

شانِ نیاز  دیکھنا، شوخیِ ناز دیکھنا
نیتِ سجدہ جب ہوئی سامنے آ گیا کوئی

لوگ اِسے جنوں کہیں یا نہ کہیں  شکیلؔ
میں تو اُس کا ہو چکا ، مجھ میں سما گیا کوئی


غزل

میری زند گی پہ نہ مسکرا، مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں  بہار سے کم نہیں

مرا رکُفر حاصلِ زُہد ہے،  مرا زُہد حاصلِ کُفر ہے
میری بندگی ہے وہ بندگی جو رہینِ دیر و حرم نہیں

وہی  کارواں، وہی راستے، وہی زندگی ،  وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں ،  ہم نہیں

نہ شانِ جبرِ شباب ہے ، نہ وہ رنگ قہر ِ عذاب ہے
دلِ بے قرار پہ اِن دنوں ، ہے ستم یہی کہ ستم نہیں

نہ فنا مری ، نہ  بقا مری، مجھے اے شکیل ؔ نہ ڈھونڈیئے
میں کسی کا حُسنِ خیال ہوں، مرا کچھ وجودِ عدم نہیں

شکیل ؔ بدایونی



غزل

دُنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوں میں
چھڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں میں

اِس کثرتِ غم پر بھی مجھے حسرت ِ غم ہے
جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں میں

رُدادِ غم  عشق ہے تازہ  میرے دم سے
عنوان ہر افسانہ ہوں، افسانہ نہیں ہوں میں

اِلزم جنوں دیں نہ مجھے  اہلِ  محبت
میں خود سمجھتا ہوں کہ  دیوانہ نہیں ہوں میں

ہے برقِ سر طور سے دل شعلہ بداماں
شمعِ سر محفل ہوںمیں دیوانہ نہیں ہوں میں

ہے گردشِ ساغر میری تقدیر  کا چکر
محتاج ِ طوافِ در میخانہ نہیں ہوں میں

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن بچا کر
پھولوں کی سیا ست سے نیگانہ   نہیں ہوں میں

لذتِ کشِ نظارہ شکیلؔ اپنی نظر  ہے
محرومِ جمالِ رُخِ جانانہ نہیں ہوں میں



Saturday, 7 December 2019

Rahat Andori (Best Poetry II)


بچا کے رکھی تھی  کچھ روشنی زمانے سے

ہوا چراغ اُڑا  لے گئی سرہانے سے

نصیحتیں نہ کرو عشق کرنے والوں کو

یہ آگ اور بھڑک جائے گی بجھانے سے



فیصلہ جو کچھ  بھی ہو منظور ہونا چاہیے

جنگ ہو یا عشق ہو بھر پور ہونا چاہیے

کٹ چکی ہے عمر ساری جن کی پتھر توڑتے

اب تو اِن ہاتھوں میں کوہِ نور ہونا چاہیے



جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا
میں آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا

وہ اب بھی ریل میں بیٹھی سسک رہی ہو گی
میں اپنا ہاتھ ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا

 خبر ملی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
میں جس زمیں پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اُس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا




عشق میں جیت کے  آنے کے لئے کافی ہوں
میں اکیلا ہی زمانے کے لئے کافی ہوں

صرف ایک بار میری نیند کا یہ جال کٹے
جاگ جاؤں تو جاگانے کے لئے کافی ہوں

ہر حقیقت کو میری خواب سمجھنے والے
میں تیری نیند اُڑانے کے کئے کافی ہوں

  ایک اخبار ہوں اوقات ہی کیا  میری مگر
شہر میں آگ لگانے کے لئے کافی ہوں

میرے بچوں مجھے تم دل کھول کے خرچ کرو
میں اکیلا ہی کمانے کے لئے کافی ہوں


Wednesday, 27 November 2019

Rahat Andori Urdu Poetry ( Best Poetry)

غزل

اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

میں چاہتا تھا چراغوں کو آفتاب کروں

اُس آدمی کو بس ایک دُھن سوار رہتی ہے

بہت حسین ہے دُنیا  اِسے خراب کروں

یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی رہی

کبھی اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں



غزل

زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر

ٹوٹ کر بکھری ہوئی تلوار کےٹکڑے سمیٹ

اور اپنے  ہار جانے کا سبب معلوم کر

جاگتی آنکھوں کے خوابوں کو غزل  کا نام دے

رات بھر کی  کروٹوں کا ذائقہ منظوم کر

شام تک لوٹ آؤں گا ہاتھوں کا خالی پن لیے

آج پھر نِکلا ہوں مَیں گھر سے ہتھیلی چوم کر

مت سکھا لہجے کو اپنی برچھیوں کے پینترے

زندہ رہنا ہے تو لہجے کو ذرا معصوم کر

راحت اندوری



رہے خیال کہ مجذوبِ عشق ہیں ہم لوگ

اگر زمیں سے پُھوکیں تو آسماں اُڑ جائیں

بکھر بکھر سی گئی ہے  کتاب  سانسوں کی

یہ کاغذات خدا جانے کب کہاں اُڑ جائیں





جھوٹوں نےجھوٹوں سےکہا ہے سچ بولو

سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو

گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے

دروازے پر لکھا ہو ا ہے سچ بولو

گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے

گلدستے کے اندر کیا ہے سچ  بولو

گنگا میا ڈوبنے والے اپنے تھے

ناؤ میں کس نے چھید کیا ہےسچ بولو




آگ کے پاس  کبھی موم کو لا کر دیکھوں

ہو اجازت تو تجھے ہاتھ لگا کر دیکھوں

دِل  کا مندر بڑا ویران نظر آتا ہے

سوچتا ہوں تیری تصویر لگا کر دیکھوں



پھولوں کی دُکانیں کھولو! خوشبو کا بیوپار کرو

عشق خطا ہےتو یہ  خطا ایک بار نہیں  سو  بار کرو

@@@@@@@@@@@@

کس نے دستک دی یہ دِل پر، کون ہے

آپ تو اندر ہیں  پھر یہ  باہر کون ہے



Tuesday, 26 November 2019

Jore Dounga Ussay ( I Shall Bound Him in love )

غزل

کبھی اکیلے میں مل کر جھنجھو ڑ دونگااُسے
جہاں جہاں  سے وہ  ٹوٹا ہے جوڑ دونگا اُسے

اور مجھے وہ چھوڑ گیا،  یہ کمال ہے اُسکا
اِرادہ میں نے کیا تھا کہ چھوڑ دونگا اُسے

 پسینے بانٹتا پھرتا ہے ہر طرف سورج
 کبھی جو ہاتھ لگا !  تو نچوڑ دونگا اُسے

مزا چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دُنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دونگا اُسے

راحت اندوری


Saturday, 16 November 2019

Naam Likha kartay thay ( We Wrote your name )


غزل

جب میں تیری دُھن میں جیا کرتے تھے
ہم بھی چُپ چاپ پِھرا کرتے تھے

آنکھوں میں پیاس ہوا کرتی تھی
دِل میں طوفان اُٹھا کرتے تھے

لوگ آتے تھے غزل سننے کو
ہم تیری بات کیا کرتے تھے

کسی ویرانے میں تجھ سے مل کر
دِل میں کیا پُھول کِھلا کرتے تھے

گھر کی دیوار سجانے کے لئے
ہم تیرا نام لکھا کرتے تھے

جب تیرے درد سے دِل دُکھتا تھا
ہم تیرے حق میں دُعا کرتے تھے

کل تجھے  دیکھ کر  یاد آیا
ہم سُخنور بھی ہوا  کرتے تھے

محسن نقویؔ


Thursday, 7 November 2019

Jaan Lutatay Jatay ( Life would be deprived )


غزل

ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان  ہوتی تو میری جان  لُٹاتے  جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گُذری ہےتیرے شہر میں آتے جاتے

اب کے مایوس ہوا یاروں کو رُخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم  لگاتے  جاتے

میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا پتھر تھا
تم تو دریا تھے میری پیاس بُجھاتے جاتے

مجھ کو رونے کو سلیقہ بھی نہیں  ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

ہم سے پہلے بھی  مسافر کئی گذرے ہوں گے
کم  سے  کم  راہ کے  پتھر  تو ہٹاتے  جاتے

راحت اندوریؔ


Zindgi Ki Kitaab ( Life Book)

زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں  خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...