Friday, 20 December 2019

Shaam honay do ( Let be Evening )

غزل

ابھی سورج نہیں ڈوبا، ذرا شام ہونے دو
میں خود ہی لوٹ جاؤں گا مجھے ناکام ہونے دو

مجھے بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے کیوں ہو
میں خود ہو جاؤں گا بدنام، پہلے نام ہونے دو

ابھی مجھ کو نہیں کرنا اعترافِ شکست تم سے
میں سب تسلیم کرلوں گا یہ چرچا  عام ہونے دو

میری ہستی نہیں انمول پھر بھی بِک نہیں سکتا
وفائیں بیچ لینا بس ذرا نیلام ہونے دو

نئے آغاز میں ہی حوصلہ کیوں چھوڑ بیٹھے ہو
تم سب کچھ جیت جاؤ گے ذرا انجام ہونے دو



Pathar lagay mujhay (Stone in love )

غزل

ہاتھوں میں اُن کے پُھول بھی پتھرلگے مجھے
اپنوں کے نام سے ہی بڑا ڈر لگے مجھے

کانٹے بھی جِن کی راہ کے پلکوں پہ رکھ لئے
اُن کی یہی دُعا ہے کہ ٹھوکر لگے مجھے

گرداب سے نکل کہ اگر آگیا تو کیا
یہ شہرِ بے کراں بھی سمندر لگے مجھے

اشکوں کو میرے جس نےسہارا نہیں دیا
وہ بے وفا وفاؤں کا پیکر لگے مجھے

ہر گام پہ کھڑی ہیں نئی مُشکلیں مگر
پہلے سے اب یہ زندگی  بہتر لگے مجھے

لمحہ ٹہر گیا تھا جو رستے میں روٹھ کر
کاوشؔ پُکارتا ہے  وہ  اکثر لگے مجھے

حسین کاوشؔ



Tuesday, 17 December 2019

Bashir Badar Poetry

 غزل

کہاں آنسوؤں کی یہ سوغات ہو گی
نئے لوگ ہوں گے نئی بات ہوگی

میں ہر حال میں مسکراتا رہوں گا
تمہاری  محبت  اگر  ساتھ  ہو گی

چراغوں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا
بڑی  دُور تک رات  ہی رات ہو گی

پریشاں ہو تم بھی، پریشان ہوں میں بھی
چلو مے کدے میں  وہیں بات ہو گی

 چراغوں کی لَو سے ستاروں کی ضو تک
تمہیں میں ملوں گا  جہاں رات ہو گی

مسافر ہیں ہم بھی، مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ  پر پھر  ملاقات  ہو گی

بشیر ؔ بدر




غزل

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر  کے خزانے نہیں آتے

پلکیں بھی چمک اُٹھتی ہیں  سونے میں ہماری
آنکھوں کو  ابھی خواب چُھپانے  نہیں آتے

دِل اُجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے

یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد پُرانے نہیں  آتے

اُڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

اَس شہر کے بادل تری زُلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں، بجھانے نہیں آتے

احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دِل کو دُکھانے نہیں آتے

بشیرؔ بدر


غزل

میری آنکھوں میں ترے پیار کا آنسو آئے
کوئی خوشبو  میں لگاؤں  تری خوشبو آئے

وقت ِ رُخصت کہیں تارے  کہیں جگنو آئے
ہار پہنانے  مجھے  پھول  سے بازو  آئے

میں نے دِن رات خدا سے یہ دُعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ہو دَر پر میرے جب تو آئے

اُس کی باتیں کہ گُل ولالہ پہ شبنم برسے
سب کو اپنانے کا اُس شوخ کو جادو آئے

اُس نے چُھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
 مُدتوں بعد مری آنکھوں میں آنسو آئے

بشیرؔ بدر



غزل

کسی کی یاد میں پلکیں ذرا بھگو لیتے
اُداس رات کی تنہا ئیوں میں رُو لیتے

دُکھوں کا بوجھ اکیلے  نہیں سنبھلتا ہے
کہیں وہ  ملتا تو اُس سے لپٹ کے رُو لیتے

اگر سفر میں ہمارا بھی  ہم سفر  ہوتا
بڑی خوشی سے انہی پتھروں پہ ہو لیتے

تمہاری راہ میں شا خوں پہ پھول سوکھ گئے
کبھی ہوا  کی طرح اُس طرف بھی ہو لیتے

یہ کیا کہ روز وہی چاندنی کا بستر ہو
کبھی تو دُھوپ کی چادر  بچھا کے سو لیتے

بشیرؔ بدر




Tuesday, 10 December 2019

Shakeel Badayouni Poetry


غزل

اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام اُمیدوں  میں گذر جاتی ہے
آج کُچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

کبھی تقدیر کا ماتم، کبھی دُنیا کا گلہ
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا

مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلہ ء نوحہ گری
اِس قدر گردشِ ایّام پہ رونا آیا

جب ہوا ذِکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے  دلِ  ناکام پہ رونا آیا


غزل

کسی کو جب نگا ہوں کے مقابل دیکھ لیتا ہوں
تو پہلے سر جھکا کے حالتِ دل دیکھ لیتا ہوں

مال جستجو ئے ذوق کامل  دیکھ لیتا ہوں
اُٹھائے ہی قدم آثار منزل دیکھ لیتا ہوں

میں تجھ سے اور لطفِ خاص کا طالب معاذاللہ
ستم گر اِس بہانے سے ترا دل دیکھ لیتا ہوں

جو موجیں خاص کر چشم و چراغِ دام طوفاں ہیں
میں اِن موجوں کو ہم آغوش ساحل دیکھ لیتا ہوں

شکیلؔ احساس ہے مجھ کو ہر اِک موزوں طبیعت کا
غزل پڑھنے سے پہلے رنگِ محفل دیکھ لیتا ہوں




غزل

تیری محفل سے اُٹھ کرعشق کے ماروں پہ کیا گذری
مُخالف اِک جہان تھا جانے بیچاروں پہ کیا گذری

سحر کو رُخصتِ بیمار فرقت دیکھنے والو
کسی نے یہ بھی دیکھا رات بھر تاروں پہ کیا گذری

سُنا ہے زندگی ویرانیوں نے لُوٹ لی مل کر
نہ جانے زندگی کے ناز برداروں پہ کیا گذری

ہنسی آئی تو ہے بے کیف سی لیکن خُدا جانے
مجھے مسرور پا کر میرے غم خواروں پہ کیا گذری

اسیرِ غم تو جان دے کر رہائی پا گیا لیکن
کسی کو کیا خبر زِندان کی دیواروں پہ کیا گذری

شکیلؔ بدایونی



غزل

رازِ وفائے ناز پھر دِل کو بتا گیا کوئی
جیسے مُراد واقعی عشق میں پا گیا کوئی

سینے میں روح دردِ دل بن کے سما گیا کوئی
ویسے ہی درد کم نہ تھا اور بڑھا گیا کوئی

شانِ نیاز  دیکھنا، شوخیِ ناز دیکھنا
نیتِ سجدہ جب ہوئی سامنے آ گیا کوئی

لوگ اِسے جنوں کہیں یا نہ کہیں  شکیلؔ
میں تو اُس کا ہو چکا ، مجھ میں سما گیا کوئی


غزل

میری زند گی پہ نہ مسکرا، مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں  بہار سے کم نہیں

مرا رکُفر حاصلِ زُہد ہے،  مرا زُہد حاصلِ کُفر ہے
میری بندگی ہے وہ بندگی جو رہینِ دیر و حرم نہیں

وہی  کارواں، وہی راستے، وہی زندگی ،  وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں ،  ہم نہیں

نہ شانِ جبرِ شباب ہے ، نہ وہ رنگ قہر ِ عذاب ہے
دلِ بے قرار پہ اِن دنوں ، ہے ستم یہی کہ ستم نہیں

نہ فنا مری ، نہ  بقا مری، مجھے اے شکیل ؔ نہ ڈھونڈیئے
میں کسی کا حُسنِ خیال ہوں، مرا کچھ وجودِ عدم نہیں

شکیل ؔ بدایونی



غزل

دُنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوں میں
چھڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں میں

اِس کثرتِ غم پر بھی مجھے حسرت ِ غم ہے
جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں میں

رُدادِ غم  عشق ہے تازہ  میرے دم سے
عنوان ہر افسانہ ہوں، افسانہ نہیں ہوں میں

اِلزم جنوں دیں نہ مجھے  اہلِ  محبت
میں خود سمجھتا ہوں کہ  دیوانہ نہیں ہوں میں

ہے برقِ سر طور سے دل شعلہ بداماں
شمعِ سر محفل ہوںمیں دیوانہ نہیں ہوں میں

ہے گردشِ ساغر میری تقدیر  کا چکر
محتاج ِ طوافِ در میخانہ نہیں ہوں میں

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن بچا کر
پھولوں کی سیا ست سے نیگانہ   نہیں ہوں میں

لذتِ کشِ نظارہ شکیلؔ اپنی نظر  ہے
محرومِ جمالِ رُخِ جانانہ نہیں ہوں میں



Saturday, 7 December 2019

Rahat Andori (Best Poetry II)


بچا کے رکھی تھی  کچھ روشنی زمانے سے

ہوا چراغ اُڑا  لے گئی سرہانے سے

نصیحتیں نہ کرو عشق کرنے والوں کو

یہ آگ اور بھڑک جائے گی بجھانے سے



فیصلہ جو کچھ  بھی ہو منظور ہونا چاہیے

جنگ ہو یا عشق ہو بھر پور ہونا چاہیے

کٹ چکی ہے عمر ساری جن کی پتھر توڑتے

اب تو اِن ہاتھوں میں کوہِ نور ہونا چاہیے



جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا
میں آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا

وہ اب بھی ریل میں بیٹھی سسک رہی ہو گی
میں اپنا ہاتھ ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا

 خبر ملی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
میں جس زمیں پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اُس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا




عشق میں جیت کے  آنے کے لئے کافی ہوں
میں اکیلا ہی زمانے کے لئے کافی ہوں

صرف ایک بار میری نیند کا یہ جال کٹے
جاگ جاؤں تو جاگانے کے لئے کافی ہوں

ہر حقیقت کو میری خواب سمجھنے والے
میں تیری نیند اُڑانے کے کئے کافی ہوں

  ایک اخبار ہوں اوقات ہی کیا  میری مگر
شہر میں آگ لگانے کے لئے کافی ہوں

میرے بچوں مجھے تم دل کھول کے خرچ کرو
میں اکیلا ہی کمانے کے لئے کافی ہوں


Zindgi Ki Kitaab ( Life Book)

زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں  خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...