Tuesday, 15 June 2021

Tum apna runj o ghum ( Gave me your grief and sorrow )

غزل

تم اپنا رنج وغم اپنی پریشانی مجھے دے دو

تمہیں غم کی قسم اِس دل کی ویرانی مجھے دےدو


مانا میں کسی قابل نہیں ہوں اِن نگاہوں کے

بُرا کیا ہےاگر یہ دُکھ یہ حیرانی   مجھے دےدو


میں دیکھوں تو سہی دُنیا تمہیں کیسے ستاتی ہے

کوئی دِن کے لئے اپنی نگہبانی مجھے دےدو


وہ دِل جو میں نے مانگا تھا مگر غیروں نے پایا

بڑی شے ہے اگر اُس کی پشیمانی مجھے دےدو


ساحر لدھیانوی




 

Mana wo aik Khawab tha ( Suppose it was a dream )

غزل

مانا  وہ ایک خواب تھا دھوکہ نظر کا تھا

اُ س بے وفا سے ربط مگر عمر بھر کا تھا


خوشبو کی چند مست لکیریں اُبھار کر

لوٹا اُدھر ہوا کا جھونکا  ، جدھر کا تھا


نکلا وہ بار بار گھٹاؤں کی اوٹ سے

اُس سے معاملہ تو فقط اک نظر کا تھا


تم مسکرا رہے تھے تو شب ساتھ ساتھ تھی

آنسو گرے تھے جس پہ وہ دامن سحر کا تھا


ہم آج بھی خود اپنے ہی سائے میں گِھر  گئے

سر میں ہمارے آج بھی سودا سفر کا تھا


کالی کرن ، یہ گنگ صداؤں کے دائرے

پہنچا کہاں رشیدؔ، اِرادہ کدھر کا تھا




 

Tuesday, 1 June 2021

Baat Pholon ki suna ( Talk about flowers )

غزل

بات پُھولوں کی سنا کرتے تھے

ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے


مشعلیں لے کے تمہارے غم کی

ہم اندھیروں میں چلا  کرتے تھے


اب کہاں ایسی طبعیت والے

چوٹ کھا کر جو دُعا  کرتے تھے


بکھری بکھری ہوئی زُلفوں والے

قافلے روک لیا  کرتے تھے


آج گلشن میں شگوفے ساغرؔ

شکوہ بادِ صبا کرتے تھے 





 

Saturday, 29 May 2021

Dasht main piyas ( Quenching thirst in the desert )

غزل

دشت میں پیاس بجھاتے ہو ئےمر جاتے ہیں

ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں


ہم پہ سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں


گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا

ہم تیرے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں


کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چُپ چاپ

ہم تو دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں


اُن کے بھی قتل کا الزام   ہمارے سر ہے

جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں


یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن

لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں


ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ

جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں


عباس تابشؔ




 

Wednesday, 26 May 2021

Sakoon dard ko gham ko ( Makes grief a medicine )

غزل

سکون درد کو، غم کو دوا بناتی ہے

یہ شاعری ہے، عجب معجزے دکھاتی ہے


کسی کے پاؤں کی آہٹ، کسی کی سرگوشی

ہوائے ہجر ، صدائیں بہت سُناتی ہے


بدلنے لگتی ہے ہر گام پر سراب کی صورت

ہوائے دشت، بہت صبر آزماتی ہے


اُسی سے شکوہ بھی رہتا ہے تلخ گوئی کا

کہ جس سے اپنی طبعیت قرار پاتی ہے


تمہاری مجھ سے ملاقات بھی اچانک تھی

تمہارا مل کے بچھڑنا بھی حادثاتی ہے


کہیں یہ کوئی نئی سازش ِہوا تو نہیں

کہ کچھ چراغ بچاتی ہے ، کچھ بُجھاتی ہے


اعتبار ساجدؔ




 

Zindgi Ki Kitaab ( Life Book)

زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں  خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...