Saturday, 29 May 2021

Dasht main piyas ( Quenching thirst in the desert )

غزل

دشت میں پیاس بجھاتے ہو ئےمر جاتے ہیں

ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں


ہم پہ سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں


گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا

ہم تیرے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں


کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چُپ چاپ

ہم تو دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں


اُن کے بھی قتل کا الزام   ہمارے سر ہے

جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں


یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن

لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں


ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ

جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں


عباس تابشؔ




 

No comments:

Post a Comment

Waqt kay sitam ( The tyranny of time)

غزل وقت نے جو کیٔے ستِم ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم بہار بھی خزاں لگے جب سے ہوے جدا صنم کس کو دِکھاؤں داغِ دل کوئی نہیں  میرا ہمدم ...