غزل
اجنبی شہر کا
اجنبی راستے ،
میری تنہائی پر مسکراتے
رہے
میں بہت دیر تک
یونہی چلتا رہا،
تم بہت یاد آتے رہے
زہر ملتا رہا،
زہر پیتے رہے،
روز مرتے رہے،
روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں
آزماتی رہی،
اور ہم بھی اُسے
آزماتے رہے
زخم جب
کوئی ذہن و دِل پر لگا،
زندگی کی طرف
اِک دریچہ کُھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں،
چوٹ کھاتے رہے ،
گنگناتے رہے
سخت حالات کے
تیز طوفان میں،
گھِرگیا تھا میرا جنوںِ
وفا
ہم چراغِ تمنا
جلاتے رہے،
وہ چراغِ تمنا بجھاتے رہے
کل کچھ ایسا ہوا
میں بہت تھک گیا،
اِس لئے سُن کے
بھی اَن سُنی کر گیا
کتنی یادوں کے
بھٹکے ہوئے کارواں،
دِل کے زخموں کے
در کھٹکھا تے رہے
No comments:
Post a Comment