غزل
پھر تیرا ذکر
دِل سنبھال گیا
ایک ہی پل میں
سب ملال گیا
ہو لیے ہم بھی
اُس طرف جاناں
جس طرف بھی تیرا
خیال گیا
آج پھر تیری یاد
مانگی تھی
آج پھر وقت ہم
کو ٹال گیا
تو دسمبر کی بات
کرتا ہے
اور ہمارا تو
سارا سال گیا
تیرا ہوتا تو
پھٹ گیا ہوتا
میرا دِل تھا جو
غم کو پال گیا
کون تھا وہ کہاں
سے آیا تھا
ہم کو کن چکروں
میں ڈال گیا
No comments:
Post a Comment