غزل
وہ دےر ہا ہے دلاسےتو عمر بھر کے مجھے
بچھڑ نہ جائے
کہیں پھر اُداس کر کے مجھے
جہاں نہ تو نہ
تیری یاد کے قدم ہوں گے
ڈرا رہے ہیں وہی
مرحلے سفر کے مجھے
ہوائے دشت مجھے
اب تو اجنبی نہ سمجھ!
کہ اب تو بھول
گئے راستے بھی گھر کے مجھے
یہ چند اشک بھی
تیرے ہیں شامِ غم لیکن
اُجالنے ہیں
ابھی خد و خال سحر کے مجھے
دِل تباہ تیرے
غم کو ٹالنے کے لیے
سُنا رہا ہے
فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
قبائے زخم بدن
پر سجا کے نکلا ہوں
وہ اب ملا بھی
تو دیکھے گا آنکھ بھر کے مجھے
کچھ اِس لیے بھی
میں اُس سے بچھڑ گیا محسنؔ
وہ دُور ُور سے
دیکھے ٹہر ٹہر کے مجھے
محسنؔ نقوی
No comments:
Post a Comment