غزل
کچھ تو ہوا بھی
سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دِل کو خوشی کے
ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات
کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین
چیت کا اُس پہ تیرا جمال بھی
سب سے نظر بچا
کے وہ مجھ کو ایسے دیکھتا
اِک دفعہ تو رُک
گئےگردشِ ماہ و سال بھی
اُس کو نہ پا
سکے تھے جب دِل کا عجب حال تھا
اب جو پلٹ کے
دیکھیے،بات تھی کچھ مُحال بھی
میری طلب تھا
ایک شخص،وہ جو ملا نہیں تو پھر
ہاتھ دُعا سے
یوں گرا، بھول گیا سوال بھی
اُس کی ہی
بازوں میں اور اُس کو سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں
پہ تھے رُوح کے اور جال بھی
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment