Monday, 18 September 2023

Koi Taza Alum ( Any fresh pain)

الم

کوئی   تازہ   الم    نہ   دکھلائے

آنے  والے خوشی  سے ڈرتے ہیں

لوگ  اب  موت  سے نہیں ڈرتے

لوگ  اب  زندگی سے ڈرتے ہیں

 

ساغر صدیقی

Sunday, 17 September 2023

Piyas Darya ki (Thirsty river)




غزل

پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے

ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے

 

تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں

ان چراغوں نے مری نیند اڑا رکھی ہے

 

کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو

تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے

 

تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے

تو نے خوشبو مرے لہجے میں بسا رکھی ہے

 

خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں

خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے


 اقبال اشہر



 

Dasht main piyas (Thirst in the desert)




غزل

دشت میں پیاس بُجھاتے ہوئے  مر  جاتے  ہیں

ہم   پرندے  کہیں  جاتے  ہوئے  مر  جاتے  ہیں

 

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس

جو  تعلق  کو  نبھاتے  ہوئے   مر   جاتے   ہیں

 

گھر  پہنچتا  ہے  کوئی   اور   ہمارے   جیسا

ہم  تیرے  شہر  سے  جاتے  ہوئے مر جاتے ہیں

 

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چُپ چاپ

ہم  تو  یہ  دھیان  میں  لاتے  ہوئے مر جاتے ہیں

 

اُن  کے  بھی  قتل   کا   الزام   ہمارے   سر   ہے

جو   ہمیں   زہر   پِلاتے  ہوئے   مر   جاتے   ہیں

 

یہ    محبت   کی   کہانی   نہیں   مرتی   لیکن

لوگ   کردار   نبھاتے   ہوئے   مر   جاتے   ہیں

 

ہم  ہیں  وہ  ٹوٹی  ہوئی  کشتیوں  والے  تابش

جو  کناروں کو  ملاتے  ہوئے   مر   جاتے   ہیں

 

عباس تابش



 

Thursday, 31 August 2023

Bazar Bik Gai




 

غزل

اب تک یہی سُنا تھا کہ بازار بِک گئے

اُس کی گلی میں گئے تو خریدار بِک گئے


جس نے ہمیں خریدا منافع کما لیا

اپنا ہے یہ کمال کہ ہر بار بِک گئے


انجام یہ نہیں تھا کہانی کا اصل میں

کیا کیجئے کہ بیچ میں کردار بِک گئے


اتنا تو فرق ہے چلو اپنوں میں غیر میں

اپنے تھے شرمسار، مگر یار بِک گئے


مت پُوچھ اِن کا بکتے محبت کے مال جو

روئے تمام عمر کے بے کار  بِک گئے


کیجئے شکایتیں بھلا اب کس کے رُو برو

قاضی بکایہاں ، اور یہاں دربار بِک گئے


تلوار کی جگہ وہاں بنتی ہیں چُوڑیاں

جس جس قبیلے کے یہاں سردار بِک گئے


جنگل کی دھوپ میں بھی نہ سایہ ہمیں ملا

قیمت لگی تو دیکھئے اشجار بِک گئے


ابرکؔ وفا کشی کا کوئی بیج تجھ میں ہے

یونہی نہیں ہیں سارے طلب گار  بِک گئے

اتباق ابرکؔ



 

Sunday, 27 August 2023

Ishq main jeet keleye

 

غزل

عشق میں جیت کے آنے کے لئے کافی ہوں

میں اکیلا ہی زمانے کے لئے کافی ہوں


ہر حقیقت کو میری خواب سمجھنے والے

میں تیری نیند اُڑانے کے لئے کافی ہوں


یہ الگ بات کے اب سوکھ چکا ہوں پھر بھی

دُھوپ کی پیاس بجھانے کے لئے کافی ہوں


بس کسی طرح میری نیند کا یہ جال کٹے

جاگ جاؤں تو جگانے کے لئے کافی ہوں


زندگی ڈھونڈتی پھرتی ہے سہارا کس کا

میں تیرا بوجھ اُٹھانے کے لئے کافی ہوں


میرے دامن میں ہیں سَو چاک مگر اے دُنیا

میں تیرے عیب چھپانے  کے لئے کافی ہوں


ایک اخبار ہوں اوقات ہی کیا ہے میری

شہر میں آگ لگانے کے لئے کافی ہوں


میرے بچوں مجھے دِل کھول کے تم خرچ کرو

میں اکیلا ہی کمانے کے لئے کافی ہوں

راحت اندوری

 


Saturday, 20 May 2023

Islahi Baat


اِصلاحی بات

صفائی نصف ایمان ہے

اور طہارت ایمان کی جان ہے

رائٹس ایس تجمل عادؔل



 

Thursday, 9 March 2023

Ya Rab Meray lab pay ( Lord on my lips)


یارب میرے لب پہ سدا یہ التجا ہو

کچھ اور نہیں تیرے محبوبؐ کی محبت عطا ہو


ہو لاکھ خیالات میرے ذہن میں لیکن

دِل میں میرے نہ کوئی  تیرے سِوا ہو


عادلؔ



 

Zindgi Ki Kitaab ( Life Book)

زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں  خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...