میرا ہو جا،
مجھے اے یار مکمل کردے
یا مجھے چھوڑ
دے، انکار مکمل کردے
تو جو خُوش ہو تو
یہی بات مجھے کافی ہے
جیت جا مجھ سے،
میری ہار مکمل کردے
میرا ہو جا،
مجھے اے یار مکمل کردے
یا مجھے چھوڑ
دے، انکار مکمل کردے
تو جو خُوش ہو تو
یہی بات مجھے کافی ہے
جیت جا مجھ سے،
میری ہار مکمل کردے
غزل
دل برباد کو ہم
برباد کہاں تک رکھتے؟؟
جانے والے تجھے
ہم یاد کہاں تک رکھتے؟
اب تیرے
ہجر کی باتیں نہیں سنتا کوئی
ہم لبوں پر تیری
رُوداد کہاں تک رکھتے؟
بڑی مشکل سے
نکالا ہے تیری یادوں کو
اپنے گھر میں
اِنہیں آباد کہاں تک رکھتے؟
کارِ دُشوار
تھا، دوبارہ محبت کرنا لیکن !
خود کو بیکار
تیرے بعد کہاں تک رکھتے؟
غزل
جو آنسو دِل میں
گرتے ہیں
وہ آنکھوں میں
نہیں رہتے
بہت سے حرف ایسے
ہیں
جو لفظوں میں
نہیں رہتے
کتابوں میں لکھے
جاتے ہیں
دُنیا بھر کے
افسانے
مگر جن میں
حقیقت ہو
کتابوں میں نہیں
رہتے
بہار آئے تو ہر
اِک
پھول پر اِک
ساتھ آتی ہے
ہوا جن کا مُقدر
ہو
وہ شاخوں میں
نہیں رہتے
مہک اور تتلیوں
کا نام
بھونرے سے جُدا
کیوں ہے
کہ یہ بھی تو
خزاں آنے پہ
پھولوں میں نہیں
رہتے
غزل
میری آنکھوں کو
سوجھتا ہی نہیں
یا مُقدر میں
راستہ ہی نہیں
وہ بھرے شہر میں
کِسی سے بھی
میرے بارے میں
پوچھتا ہی نہیں
پھر وہی شام ہے
وہی ہم ہیں
ہاں مگر دِل
میں حوصلہ ہی نہیں
ہم چلے اُس کی بزم سے اُٹھ کر
اور وہ ہے کہ
روکتا ہی نہیں
دِل جو اِک دوست
تھا مگر وہ بھی
چُپ کا پتھر ہے
بولتا ہی نہیں
میں تو اُس کی
تلاش میں گُم ہوں
وہ کبھی مجھ کو ڈھونڈتا
ہی نہیں
نوشی گیلانی
کون بھنور میں
ملاحوں سے تکرار کرے گا
اب تو قسمت سے
ہی کوئی دریا پار کرے گا
دِل میں تیرا
قیام تھا ،لیکن یہ کسے خبر تھی
دُکھ بھی اپنے
ہونے کا اصرار کرے گا
نوشی گیلانی
غزل
مل گئی آپ کو
فُرصت کیسے
یاد آئی میری
صورت کیسے
پُوچھ اُن سے جو
بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہے
قیامت کیسے
تیری خاطر تو یہ
آنکھیں پائیں
میں بُھلادوں
تیری صورت کیسے
اب تو سب کچھ
مُیسر ہے اُسے
اب اُسے میری
ضرورت کیسے
تجھ سے اب کوئی تعلق
ہی نہیں
تجھ سے اب کوئی
شکایت کیسے
کاش ہم کو بھی
بتا دے کوئی
لوگ کرتے ہیں
محبت کیسے
تیرے دِل میں
میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری
قسمت کیسے
وہ تو خود اپنی
تمنا ہے عدیمؔ
اُس کے دِل میں
کوئی چاہت کیسے
غزل
بے وفا سے دل
لگا کر رو پڑے
دل پہ ہم اِک
چوٹ کھا کر رو پڑے
جس نے پوچھا ہم
سے بچھڑے یار کا
اُس کو سینے سے
لگا کر رو پڑے
اپنے دِلبر کی
خوشی کے واسطے
دِل کا ہر ایک
غم چُھپا کے رو پڑے
لکھ کے اُس کا نام دِل کے ورق پر
اپنی ہستی کو
مٹا کر رو پڑے
جو دیئے ہیں زخم
صادقؔ یار نے
وہ زمانے کو
دکھا کر رو پڑے
زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...