Tuesday, 29 December 2020

Meri Ankhon ko ( To my eyes )


غزل


میری آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں

یا مُقدر میں راستہ ہی نہیں


وہ بھرے شہر میں کِسی سے بھی

میرے بارے میں پوچھتا ہی نہیں


پھر وہی شام ہے وہی ہم ہیں

ہاں مگر دِل میں  حوصلہ ہی نہیں


ہم چلے اُس  کی بزم سے اُٹھ کر 

اور وہ ہے کہ روکتا ہی نہیں


دِل جو اِک دوست تھا مگر وہ بھی

چُپ کا پتھر ہے بولتا    ہی نہیں


میں تو اُس کی تلاش میں گُم ہوں

وہ کبھی مجھ کو ڈھونڈتا ہی نہیں


 نوشی گیلانی



 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے