غزل
شعلہ سا جل بجھا
ہوں، ہوائیں مجھے نہ دو
میں کب کا جا
چُکا ہوں ، صدائیں مجھے نہ دو
جو زہر پی چکا
ہوں ،تمہی نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی ،دُعائیں مجھے نہ دو
ایسا کبھی نہ ہو کہ پلٹ کر نہ آ سکوں
ہر بار دُور جا
کے ،صدائیں مجھے نہ دو
کب مجھ کو
اعترافِ محبت نہ تھا فرازؔ
کب میں نے یہ
کہا تھا، سزائیں مجھے نہ دو
احمد فرازؔ
No comments:
Post a Comment