غزل
مرتی ہوئی زمین
کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت
میں آنا پڑا مجھے
وہ کر نہیں رہا
تھا میری بات کا یقین
پھر یوں ہوا کہ
مر کے دِکھانا پڑا مجھے
بُھولے سے میری سِمت کوئی دیکھتا نہیں
چہرے پہ اِک زخم
لگانا پڑا مجھے
اُس اجنبی سے
ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے
ہاتھ ملانا پڑا مجھے
اُس بے وفا کی
یاد دِلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ
ہاتھ اُٹھانا پڑا مجھے
ایسے بچھڑ کے اُس
نے تو مر جانا تھا محسنؔ
اُس کی نظر میں
خود کو گِرانا پڑا مجھے
No comments:
Post a Comment