غزل
مل گئی آپ کو
فُرصت کیسے
یاد آئی میری
صورت کیسے
پُوچھ اُن سے جو
بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہے
قیامت کیسے
تیری خاطر تو یہ
آنکھیں پائیں
میں بُھلادوں
تیری صورت کیسے
اب تو سب کچھ
مُیسر ہے اُسے
اب اُسے میری
ضرورت کیسے
تجھ سے اب کوئی تعلق
ہی نہیں
تجھ سے اب کوئی
شکایت کیسے
کاش ہم کو بھی
بتا دے کوئی
لوگ کرتے ہیں
محبت کیسے
تیرے دِل میں
میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری
قسمت کیسے
وہ تو خود اپنی
تمنا ہے عدیمؔ
اُس کے دِل میں
کوئی چاہت کیسے
No comments:
Post a Comment