غزل
بسا ہوا تھا
میرے دِل میں، وہ درد جیسا تھا
وہ اجنبی تھا
مگر گھر کے فرد جیسا تھا
کبھی وہ چشمِ
تصوّر میں گرد کی صورت
کبھی وہ خیال کے
شیشے پہ
گرد جیسا تھا
جُدا ہوا نہ
لبوں سے وہ ایک پل کے لئے
کبھی دُعا تو
کبھی آہِ سرد جیسا تھا
جنم کا ساتھ
نبھایا نہ جا سکا عاجزؔ
وہ شاخِ سبز تو
میں برگِ زرد جیسا تھا
No comments:
Post a Comment