غزل
پل بھر کو آیا تھا کہ عمر بیت گئی
کچھ بھی نہ پایا
تھا کہ عمر بیت گئی
کیسے طے ہوا سفر
، یہ نہ پوچھیے
فقط قدم اُٹھایا
تھا کہ عمر بیت گئی
اک عمر منتظر
رہا میں اُجالوں کا
دِن ہو نے کو
آیا تھا کہ عمر بیت گئی
بے سبب بھٹکتا
رہا یونہی در بدر
نشانِ راہ نا
پایا تھا کہ عمر بیت گئی
میری عبادتوں پر
وحیدؔ اتنی گواہی دینا
ابھی سر ہی جھکا
یا تھا کہ عمر بیت گئی
No comments:
Post a Comment