گیت لکھے بھی تو
ایسے کہ سنائے نہ گئے
زخم یوں لفظوں
میں اُترے کہ دِکھائے نہ گئے
آج تک رکھے ہیں
پچھتا وے کی الماری میں
اک دو وعدے جو
دونوں سے نبھائے نہ گئے
غزل وقت نے جو کیٔے ستِم ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم بہار بھی خزاں لگے جب سے ہوے جدا صنم کس کو دِکھاؤں داغِ دل کوئی نہیں میرا ہمدم ...
No comments:
Post a Comment