غزل
دیوانہ ہوں پتھر
سے وفا مانگ رہا ہوں
دُنیا کے خداؤں
سے، خُدا مانگ رہا ہوں
اُس شخص سے چاہت
کا صلہ مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں
آج یہ کیا مانگ رہا ہوں
الفاظ بھی سادہ
ہیں میری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں
سے ضیاء مانگ رہا ہوں
پہنے ہوئے نکلا
ہوں جو بکھرے ہوئے پتے
ہر شخص سے میں
سگِ صبا مانگ
رہا ہوں
گر مانگا نہیں
میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اَب مانگ رہا
ہوں ، تو خُدا مانگ رہا ہوں
بے نام اندھیروں
کی سیاہی ہے میرے پاس
پھر بھی شبِ
ظلمت کا پتا مانگ
رہا ہوں
No comments:
Post a Comment