غزل
کوئی مُجھ کو
میرا بھرپور سَراپا لادے
میرے بازو، میرا
آنکھیں، میرا چہرہ لا دے
ایسا دریا کو
کسی اور سمندر میں گرے
اُس سے بہتر ہے کہ
مجھ کو میرا صحرا لا دے
کچھ نہیں
چاہیئے تجھ سےاے میری عمرِ رواں
میرا بچپن ،
میرے جگنو، میری گُڑیا لا دے
جس کی آنکھیں
مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو
میرے شہر میں ایسا لا دے
کشتیِ جاں تو
بھنور میں ہے کئی برسوں سے
اِے خدا اَب ڈبو
دے یا کنارہ لا دے
نوشی گیلاؔنی
غزل
تم نے تو کہہ
دیا کہ محبت نہیں ملی
مجھ کو تو یہ
کہنے کی مہلت نہیں ملی
نیندوں کے دیس
جاتے کوئی خواب دیکھتے
لیکن دیا جلانے
کی فُرصت نہیں ملی
تجھ کو تو خیر
شہر کے لوگوں کا خوف تھا
اور مجھ کو
اپنے گھر سے اِجازت نہیں ملی
پھر اِختلافِ
رائے کی صورت نکل پڑی
اپنی یہاں کسی سے بھی عادت نہیں ملی
بے زار یوں ہوئے
کہ ترےعہد میں ہمیں
سب کچھ ملا سکون
کی دولت نہیں ملی
غزل
محبتیں جب شمار
کرنا، تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصّے
میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
جلائے رکھوں گی
صبح تک میں تمہارے رستوں میں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط
ٹوٹ جائے، تو بارشیں بھی شمار کرنا
جو حرف لوحِ وفا
پہ لکھے ہوئے ہیں اُن کو بھی دیکھ لینا
جو رائیگاں ہو
گئیں وہ ساری عبارتیں بھی شمار کرنا
یہ سردیوں کا
اُداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں
جب اِن کی یخ
بستگی پرکھنا، تمازتیں بھی شمار کرنا
تم اپنی
مجبوریوں کے قصّے ضرور لکھنا وضاحتوں میں
جو میری آنکھوں
میں جل بجھی ہیں، وہ خواہشیں بھی شمار
کرنا
نوشی گیلاؔنی
غزل
تری خوشبو نہیں
ملتی، تیرا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں
کوئی تیرے جیسا نہیں ملتا
یہ کیسی دُھند
میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں
نہیں ملتی، ہمیں چہرہ نہیں ملتا
ہر ایک تدبیر
اپنی رائیگاں ٹھہری محبت میں
کسی بھی خواب کو
تعبیر کا رَستہ نہیں ملتا
بھلا اُس کے
دُکھوں کی رات کا کوئی مداوا ہے
وہ ماں جس کو
کبھی کھویا ہوا بچہ نہیں ملتا
زمانے کو قرینے
سے وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے
مگر میرے لئے
اُس کو کوئی لمحہ نہیں ملتا
مُسافت میں
دُعائے اَبر اُن کا ساتھ دیتی ہے
جنہیں صحرا کے
دامن میں کوئی دریا نہیں ملتا
جہاں ظلمت رگوں
میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے
اُسی تاریک
رستے پر دیا جلتا نہیں ملتا
نوشی گیلاؔنی