Monday, 30 December 2019

Noshi gillani Poetry

غزل

کوئی مُجھ کو میرا بھرپور سَراپا لادے
میرے بازو، میرا آنکھیں، میرا چہرہ لا دے

ایسا دریا کو کسی اور  سمندر میں گرے
اُس سے بہتر ہے کہ مجھ کو میرا صحرا لا دے

کچھ نہیں چاہیئے  تجھ سےاے میری عمرِ رواں
میرا بچپن ، میرے جگنو، میری گُڑیا لا دے

جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو میرے شہر میں ایسا  لا دے

کشتیِ جاں تو بھنور میں ہے  کئی برسوں سے
اِے خدا اَب ڈبو دے یا کنارہ لا دے

 نوشی گیلاؔنی


غزل

تم نے تو کہہ دیا کہ محبت نہیں ملی
مجھ کو تو یہ کہنے کی مہلت نہیں ملی

نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے
لیکن دیا جلانے کی فُرصت نہیں ملی

تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا
اور مجھ کو اپنے  گھر سے اِجازت  نہیں ملی

پھر اِختلافِ رائے کی صورت نکل پڑی
اپنی  یہاں کسی سے بھی  عادت نہیں ملی

بے زار یوں ہوئے کہ ترےعہد  میں ہمیں
سب کچھ ملا سکون کی دولت   نہیں ملی



غزل

محبتیں جب شمار کرنا، تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصّے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا

جلائے رکھوں گی صبح تک میں تمہارے رستوں میں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے، تو بارشیں بھی شمار کرنا

جو حرف لوحِ وفا پہ لکھے ہوئے ہیں اُن کو بھی دیکھ لینا
جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبارتیں   بھی شمار کرنا

یہ سردیوں کا اُداس موسم  کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں
جب اِن کی یخ بستگی پرکھنا، تمازتیں بھی شمار کرنا

تم اپنی مجبوریوں کے قصّے ضرور لکھنا وضاحتوں میں
جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں، وہ خواہشیں بھی شمار کرنا

 نوشی گیلاؔنی



غزل

تری خوشبو نہیں ملتی، تیرا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی تیرے جیسا نہیں ملتا

یہ کیسی دُھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتی، ہمیں چہرہ نہیں ملتا

ہر ایک تدبیر اپنی رائیگاں ٹھہری محبت میں
کسی بھی  خواب کو  تعبیر کا رَستہ   نہیں ملتا

بھلا اُس کے دُکھوں کی رات کا کوئی مداوا ہے
وہ ماں جس کو کبھی  کھویا ہوا بچہ نہیں ملتا

زمانے کو قرینے سے وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے
مگر میرے لئے اُس کو کوئی لمحہ نہیں ملتا

مُسافت میں دُعائے اَبر اُن کا ساتھ دیتی ہے
جنہیں صحرا کے دامن میں کوئی  دریا  نہیں ملتا

جہاں ظلمت رگوں میں اپنے پنجے  گاڑ دیتی ہے
اُسی تاریک رستے  پر دیا جلتا نہیں ملتا

نوشی گیلاؔنی



Thursday, 26 December 2019

A. Hameed Adam Poetry


غزل

 جو لوگ جان بوجھ کے نادان بن گئے
میرا خیال ہے کہ وہ انسان بن گئے

محشر میں ہم گئے تھے مگرکچھ نہ پو چھئے
وہ اتفاق سے وہاں انجان بن گئے

رہبر سے جان بچی تھی کہ راہزن نے آلیا
کیا مستقل نجات کے سامان بن گئے

جانا تھا ڈوبنے ہمیں منجدھار میں، مگر
ساحل کے آس پاس ہی طوفان بن گئے

انسانیت کی بات تو اتنی ہے شیخ جی!
بد قسمتی سے آپ بھی انسان بن گئے

کانٹے تھے چند دامنِ فطرت میں اے عدمؔ
کچھ پھول اور کچھ  مرے ارمان بن گئے


غزل

 کیا دوستوں کا رنج کہ بہتر نہیں ملے
دُشمن بھی ہم کو قد کے برابر نہیں ملے

اِس بحرِ آرزو میں جو کرتے ہمیں تلاش
اب تک تو ہم کو ایسے شناور نہیں ملے

بس ایسا کچھ ہوا کہ سمجھ میں نہ آسکا
دل مل گئے ، ہمارے مُقدر نہیں ملے

ملتے ہیں لوگ لمبی جدائی کے بعد بھی
تم ایسے گُم ہوئے کہ پلٹ کر  نہیں ملے

لوگوں نے گفتگو میں کریدا بہت ہمیں
ہم خود سے ہمکلام تھے اکثر  نہیں ملے 



غزل

زندگی ناتمام ہے شاید
موت وقفے کا  نام ہے شاید

ایسا محسوس ہورہا ہے  کوئی
خواب میں ہم کلام ہے شاید

دل کی دھڑکن وجود ہے اُس کا
سانس اُس کا پیام ہے شا ید

ایک سفاک آنکھ کا مطلب
ایک بھرپور جام ہے شاید

پی گیا ہے جو میرا حصّہ بھی
شیخ عالی مقام ہے شاید

رہنما ساتھ دے نہیں سکتے
راہ رو تیز گام ہے شاید

کتنی ضو ہے عدمؔ کے چہرے پر
غیر رسمی امام ہے شاید





Tuesday, 24 December 2019

Adam Poetry

غزل

زخم دل کے اگر سیئے ہوتے
اہلِ دل کس طرح جیئے ہوتے

وہ ملے بھی تو ایک جھجھک سی رہی
کاش تھوڑی سی ہم پیئے ہوتے

آرزؤ مطمئیں  تو ہو جاتی
اور بھی کچھ ستم کیئے ہوتے

لذتِ غم تو بخش دی اُس نے
حوصلے بھی عدمؔ دیئے ہوتے



غزل

مسکرا کے خطاب کرتے ہو
عادتیں کیوں خراب کرتے ہو

کیا ضرورت ہے بحث کرنے کی
کیوں کلیجہ کباب کرتے ہو

ہو چکا جو حساب ہونا تھا
اور اب کیا حساب کرتے ہو

یہ نئی احتیاط دیکھی ہے
آئینے سے حجاب کرتے ہو

ایک دن اے عدمؔ نہ پی تو کیا
 روز شغل  شراب کرتے ہو

عبدالحمید عدمؔ



Saturday, 21 December 2019

Saghar Siddique Poetry

غزل

ہے دُعا یاد مگر حرفِ دُعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

میں نے پلکوں سے درِیار پہ دستک دی  تھی
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا  یاد نہیں

ہم نے جِن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی  چراغوں کی  ضیاء یاد نہیں

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہےسز ایاد نہیں

آؤ  اِک سجدہ کریں عالمِ مد ہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خُدا  یاد نہیں



غزل

یہ جو دیوانےسے دو چار نظر آتے ہیں
اِن کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سوجاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو  بیدار  نظر آتے ہیں

دُور تک کوئی  سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمید کے  آثار نظر آتے ہیں

میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی  نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغرؔ
               سب تمہا رے ہی طرفدار نظر آتے ہیں 




غزل

اِس درجہ عشق موجبِ رُسوائی بن گیا
میں آپ اپنے  گھر کا تماشائی بن گیا

دیر و حرم کی راہ سے دِل بچ گیا مگر
تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا

بزمِ وفا میں آپ سے اک پل کا سامنا
یاد آگیا تو عہدِ شنا سائی بن گیا

بے ساختہ بکھر گئی جلوؤں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تیری انگڑائی بن گیا

دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موجِ زندگی
میرا خیال وقت کی شہنائی  نظر آتے ہیں




غزل

بات پھولوں کی  سُنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے

مشعلیں لے کر تمہارے غم کی
ہم اندھیروں میں  چلا کرتے تھے

اب کہاں ایسی طبیعت والے
چو ٹ کھا کر جو دُعا کرتے تھے

بکھری بکھری زُلفوں والے
قافلے روک لیا کرتے تھے

آج گلشن میں شگوفے  ساغرؔ
شکوہ ِ بادِ  صبا کرتے تھے

ساغرؔ صدیقی 


غزل

چُھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زُبان بیٹھے ہیں

یہ اور بات کہ منزل پہ ہم نہ پہنچ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان   بیٹھے ہیں

فغاں ہے،درد ہے، سوزوفراق وداغ الم
ابھی تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں

اب اور گردشِ تقدیر کیا  ستائے گی
لُٹا کہ عشق میں نام ونشان بیٹھے ہیں

وہ ایک لفظ محبت ہی دِل کا دُشمن ہے
جسے شعریعتِ احساس مان بیٹھے ہیں

ہے میکدے کی  بہاروں سے دستی  ساغرؔ
درائے حدِ یقین و گمان بیٹھے ہیں


Friday, 20 December 2019

Shaam honay do ( Let be Evening )

غزل

ابھی سورج نہیں ڈوبا، ذرا شام ہونے دو
میں خود ہی لوٹ جاؤں گا مجھے ناکام ہونے دو

مجھے بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے کیوں ہو
میں خود ہو جاؤں گا بدنام، پہلے نام ہونے دو

ابھی مجھ کو نہیں کرنا اعترافِ شکست تم سے
میں سب تسلیم کرلوں گا یہ چرچا  عام ہونے دو

میری ہستی نہیں انمول پھر بھی بِک نہیں سکتا
وفائیں بیچ لینا بس ذرا نیلام ہونے دو

نئے آغاز میں ہی حوصلہ کیوں چھوڑ بیٹھے ہو
تم سب کچھ جیت جاؤ گے ذرا انجام ہونے دو



Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے