غزل
میں لوگوں سے
محبت میں انائیں چھوڑ دیتا ہوں
وفائیں یاد رکھتا
ہوں ، جفائیں چھوڑ دیتا ہوں
کھلے رکھتا ہوں
دل کےراستے ناراض لوگوں پر
میں واپس آنے
والوں کی خطائیں چھوڑ دیتا ہوں
میں سب لوگوں سے
ملتا ہوں ادب سے بات کرتا ہوں
یہ شہرت اور
بُلندی کی ہوائیں چھوڑ دیتا ہوں
تکبر شور کرتا
ہےکرو تذلیل لوگوں کی
میں اپنے نفس کی
ساری صدائیں چھوڑ دیتا ہوں
کوئی دل کو
دُکھائے مُسکرا کر بات کرتا ہوں
نبیؐ کو یاد کرتا ہوں خطائیں چھوڑ دیتا ہوں
غزل
وہ رستے ترک
کرتا ہوں ، وہ منزل چھوڑ دیتا ہوں
جہاں عزت نہیں
ملتی، وہ محفل چھوڑ دیتا ہوں
کناروں سے اگر
میری خُودی کو ٹھیس پہنچے تو
بھنور میں ڈوب
جاتا ہوں، وہ ساحل چھوڑ دیتا ہوں
مجھے مانگے ہوئے
سائے ہمیشہ دُھوپ لگتے ہیں
میں سورج کے گلے
پڑتا ہوں، بادل چھوڑ دیتا ہوں
تعلق یوں نہیں
رکھتا،کبھی رکھا کبھی چھوڑا
جسے میں چھوڑ
ہوں پھر مسلسل چھوڑ دیتا ہوں
غزل
تعلق توڑتا ہوں
تو مکمل توڑ دیتا ہوں
جسے میں چھوڑتا
ہوں مکمل چھوڑ دیتا ہوں
محبت ہو کہ نفرت
ہو بھرا رہتا ہوں شدّت سے
جدھر سے آئے یہ
دریا اُدھر کو موڑ دیتا ہوں
یقیں رکھتا نہیں
ہوں میں کسی کچے تعلق پر
جو دھاگا ٹوٹنے
والا ہو اُس کو توڑ دیتا ہوں
میرے دیکھے ہوئے
سپنے کہیں لہریں نہ لے جائیں
گھروندے ریت کے
تعمیر کرکے توڑ دیتا ہوں
عدیم ؔ اب تک
وہی بچپن وہی تخریب کاری ہے
قفس کو توڑ دیتا
ہوں، پرندے چھوڑ دیتا ہوں
عدیم ؔ ہاشمی