غزل
میں اپنی دوستی
کو شہر میں رُسوا نہیں کرتا
محبت میں بھی
کرتا ہوں مگر چرچا نہیں کرتا
جو مجھ سے ملنے
آ جائےمیں اُسکا دل سے خادم ہوں
جو اُٹھ کر جانا
چاہے میں اُسے روکا نہیں کرتا
جسے میں چھوڑ
دیتا ہوں اُسے پھر بھول جاتا ہوں
پھر اُس ہستی کی جانب میں کبھی دیکھا نہیں کرتا
پھر اُس ہستی کی جانب میں کبھی دیکھا نہیں کرتا
تیرا
اِصرار سر آنکھوں پر کہ تم کو بھول جاؤں
گا
میں کوشش کر کے
دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا
No comments:
Post a Comment