غزل
میرے دل کی راکھ
کرید مت
اسے مسکرا کے
ہوا نہ دے
یہ چراغ پھر بھی
چراغ ہے
کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے
نئے دور کے نئے
خواب ہیں
نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے
چراغ ہیں
انہیں
نفرتوں کی ہوا نہ دے
ذرا دیکھ چاند
کی پتیوں نے
بکھر بکھر کے
تمام شب
ترا نام لکھا
ہے ریت پر
کوئی لہر آ کے
مٹا نہ دے
مرے ساتھ چلنے
کے شوق میں
بڑی دھوپ سر پہ
اُٹھائے گا
ترا ناک نقشہ ہے
موم کا
کہیں غم کی آگ
گھلا نہ دے
میں غزل کی
شبنمی آنکھ سے
یہ دکھوں کے
پھول چُنا کروں
مری سلطنت مرا
فن رہے
مجھے تاج و تخت
خدا نہ دے
بشیر بدرؔ
No comments:
Post a Comment