Thursday, 21 September 2023

Muhabbat karnay walay ( The Lovers)


غزل

محبت  کرنے  والے  کم  نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے


میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک

شریک   گریۂ   شبنم   نہ   ہوں   گے


ذرا   دیر   آشنا   چشم    کرم    ہے

ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے


دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر  کچھ  مشورے  باہم نہ ہوں گے


زمانے  بھر  کے  غم  یا اک ترا غم

یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے


کہوں  بے  درد  کیوں  اہل جہاں کو

وہ میرے حال سے محرم نہ ہوں گے


ہمارے  دل  میں  سیل  گریہ  ہو  گا

اگر   با دیدۂ   پر نم    نہ   ہوں   گے


اگر    تو    اتفاقاً   مل    بھی   جائے

تری  فرقت  کے  صدمے  کم نہ ہوں گے


حفیظؔ ان سے میں جتنا بد گماں ہوں

وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے




 

Monday, 18 September 2023

Kis Taraf Ko chalti hai (Which way does it go)


غزل

کس طرف  کو  چلتی  ہے اب ہوا نہیں معلوم

ہاتھ  اُٹھا  لئے  سب  نے  اور دُعا  نہیں معلوم

 

موسموں کے چہروں سے زردیاں نہیں جاتیں

پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما نہیں معلوم

 

رہبروں  کے  تیور  بھی  رہزنوں  سے لگتے ہیں

کب  کہاں  پہ  لُٹ  جائے  قافلہ  نہیں  معلوم

 

سرو  تو  گئی  رُت  میں  قامتیں  گنوا  بیٹھے

قمریاں  ہوئیں  کیسے  بے  صدا  نہیں  معلوم

 

منظروں  کی  تبدیلی  بس  نظر  میں رہتی ہے

ہم بھی ہوتے جاتے ہیں کیا سے کیا نہیں معلوم

 

ہم  فراز  شعروں  سے  دل  کے زخم بھرتے ہیں

کیا  کریں  مسیحا  کو   جب   دوا  نہیں معلوم

 

احمد فراز



 

Koi Taza Alum ( Any fresh pain)

الم

کوئی   تازہ   الم    نہ   دکھلائے

آنے  والے خوشی  سے ڈرتے ہیں

لوگ  اب  موت  سے نہیں ڈرتے

لوگ  اب  زندگی سے ڈرتے ہیں

 

ساغر صدیقی

Sunday, 17 September 2023

Piyas Darya ki (Thirsty river)




غزل

پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے

ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے

 

تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں

ان چراغوں نے مری نیند اڑا رکھی ہے

 

کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو

تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے

 

تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے

تو نے خوشبو مرے لہجے میں بسا رکھی ہے

 

خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں

خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے


 اقبال اشہر



 

Dasht main piyas (Thirst in the desert)




غزل

دشت میں پیاس بُجھاتے ہوئے  مر  جاتے  ہیں

ہم   پرندے  کہیں  جاتے  ہوئے  مر  جاتے  ہیں

 

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس

جو  تعلق  کو  نبھاتے  ہوئے   مر   جاتے   ہیں

 

گھر  پہنچتا  ہے  کوئی   اور   ہمارے   جیسا

ہم  تیرے  شہر  سے  جاتے  ہوئے مر جاتے ہیں

 

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چُپ چاپ

ہم  تو  یہ  دھیان  میں  لاتے  ہوئے مر جاتے ہیں

 

اُن  کے  بھی  قتل   کا   الزام   ہمارے   سر   ہے

جو   ہمیں   زہر   پِلاتے  ہوئے   مر   جاتے   ہیں

 

یہ    محبت   کی   کہانی   نہیں   مرتی   لیکن

لوگ   کردار   نبھاتے   ہوئے   مر   جاتے   ہیں

 

ہم  ہیں  وہ  ٹوٹی  ہوئی  کشتیوں  والے  تابش

جو  کناروں کو  ملاتے  ہوئے   مر   جاتے   ہیں

 

عباس تابش



 

Thursday, 31 August 2023

Bazar Bik Gai




 

غزل

اب تک یہی سُنا تھا کہ بازار بِک گئے

اُس کی گلی میں گئے تو خریدار بِک گئے


جس نے ہمیں خریدا منافع کما لیا

اپنا ہے یہ کمال کہ ہر بار بِک گئے


انجام یہ نہیں تھا کہانی کا اصل میں

کیا کیجئے کہ بیچ میں کردار بِک گئے


اتنا تو فرق ہے چلو اپنوں میں غیر میں

اپنے تھے شرمسار، مگر یار بِک گئے


مت پُوچھ اِن کا بکتے محبت کے مال جو

روئے تمام عمر کے بے کار  بِک گئے


کیجئے شکایتیں بھلا اب کس کے رُو برو

قاضی بکایہاں ، اور یہاں دربار بِک گئے


تلوار کی جگہ وہاں بنتی ہیں چُوڑیاں

جس جس قبیلے کے یہاں سردار بِک گئے


جنگل کی دھوپ میں بھی نہ سایہ ہمیں ملا

قیمت لگی تو دیکھئے اشجار بِک گئے


ابرکؔ وفا کشی کا کوئی بیج تجھ میں ہے

یونہی نہیں ہیں سارے طلب گار  بِک گئے

اتباق ابرکؔ



 

Sunday, 27 August 2023

Ishq main jeet keleye

 

غزل

عشق میں جیت کے آنے کے لئے کافی ہوں

میں اکیلا ہی زمانے کے لئے کافی ہوں


ہر حقیقت کو میری خواب سمجھنے والے

میں تیری نیند اُڑانے کے لئے کافی ہوں


یہ الگ بات کے اب سوکھ چکا ہوں پھر بھی

دُھوپ کی پیاس بجھانے کے لئے کافی ہوں


بس کسی طرح میری نیند کا یہ جال کٹے

جاگ جاؤں تو جگانے کے لئے کافی ہوں


زندگی ڈھونڈتی پھرتی ہے سہارا کس کا

میں تیرا بوجھ اُٹھانے کے لئے کافی ہوں


میرے دامن میں ہیں سَو چاک مگر اے دُنیا

میں تیرے عیب چھپانے  کے لئے کافی ہوں


ایک اخبار ہوں اوقات ہی کیا ہے میری

شہر میں آگ لگانے کے لئے کافی ہوں


میرے بچوں مجھے دِل کھول کے تم خرچ کرو

میں اکیلا ہی کمانے کے لئے کافی ہوں

راحت اندوری

 


Saturday, 20 May 2023

Islahi Baat


اِصلاحی بات

صفائی نصف ایمان ہے

اور طہارت ایمان کی جان ہے

رائٹس ایس تجمل عادؔل



 

Thursday, 9 March 2023

Ya Rab Meray lab pay ( Lord on my lips)


یارب میرے لب پہ سدا یہ التجا ہو

کچھ اور نہیں تیرے محبوبؐ کی محبت عطا ہو


ہو لاکھ خیالات میرے ذہن میں لیکن

دِل میں میرے نہ کوئی  تیرے سِوا ہو


عادلؔ



 

Nahi Nahi main nahi hoon ( No, no, I'm not )


نہیں نہیں ،میں نہیں ہوں

تو ہی تو ہے، میں نہیں ہوں


ہے بظاہر وجود میرا عادلؔ

میں نہیں ہوںتو ہے موجود


 

Akhain kanay door hai ( For away from Eyes )


اکھین کنّے دور ہے، دل کنّے گیا نہیں

دِل مجبور ہے، ہالے تک بُھلیا نہیں


توں مِل ویجیں ہاں، زندگی بن ونجیں ہا

عمر اِویں گذاری ہے، ہالے تک جیا نہیں


عادؔل



 

Waqt kay sitam ( The tyranny of time)

غزل وقت نے جو کیٔے ستِم ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم بہار بھی خزاں لگے جب سے ہوے جدا صنم کس کو دِکھاؤں داغِ دل کوئی نہیں  میرا ہمدم ...