Wednesday, 15 April 2020

Chahton ka sisilla ( Love Relation series )


غزل

ختم اپنی چاہتوں کا سلسلہ کیسے ہوا
تُو تو مجھ میں جذب تھا  مجھ سے جُدا کیسے ہوا

وہ تیرے اور میرے درمیاں اِک بات تھی
آؤ سوچیں ذرا شہر اِس سے آشنا کیسے ہوا

چُبھ گئیں سینے میں ٹوٹی خواہشوں کی کرچیاں
کیا لکھوں دِل ٹوٹنے کا حادثہ  کیسے ہوا

جو رگِ جاں تھا کبھی ملتا ہے اب رُخ پھیر کر
سوچتا ہوں اِس قدر وہ بے وفا کیسے ہوا 



Tuesday, 14 April 2020

Jalnay lagi lahoo main judaee ( The burning of broken heart )

غزل

جلنے لگی لہو میں جُدائی تو  رُو د ئیے
تنہا ئیوں نے خاک اُڑائی تو  رُو د ئیے

چہرے نے تیرا روگ چھپایا تو ہنس دئیے
آنکھوں نے تیری یاد منائی تو  رُو د ئیے

خوشیوں نے کوئی یاد دلا یا تو تڑپ اُٹھے
پھولوں نے داستان سنائی تو  رُو د ئیے

گزرا ہے ہم پہ خود یہی عالم اِسی لئے
ہنسنے لگی کسی پہ خدائی   تو  رُو د ئیے

راس آ چکی تھی  تیرگئی شب کچھ اِس قدر
گر شمع بھی کسی نے جلائی تو  رُو د ئیے



Friday, 10 April 2020

Suna hai log use aankh bhar ( See with their heart eyes )

غزل

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اُس کے شہر میں کچھ دِن ٹھہر  کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کو بھی ہے شعر وشاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر   کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑ تے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر  کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام ِ فلک سےاُتر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے دِن کو اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جگنو  ٹھہر کے دیکھتے ہیں

اب اُس کے شہر  میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرؔاز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں 



Monday, 6 April 2020

Mujh se milte hain ( When he meet me )


غزل

مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چُرا کر آنکھیں
پھر وہ کس کے لئے رکھتے ہیں سجا کر آنکھیں

میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں جہاں تک دیکھوں
ایک وہ ہیں جو دیکھیں نا کبھی اُٹھا کر آنکھیں

اِس جگہ آج   بھی بیٹھا ہوں  اکیلا یارو!
جس جگہ چھوڑ گئے تھے وہ ملا کر آنکھیں

مجھ سے نظریں وہ اکثر  چُرا  لیتے ہیں فرازؔ
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہیں بنا کر آنکھیں



Dukh day kar sawal kartay ho ( You ask with sorrow )


غزل

دُکھ دے کر سوال کرتے ہو۔۔
تم بھی غالب کمال کرتے ہو۔۔

دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا،
چلو کچھ تو خیال کرتے ہو

شہرِ دل میں یہ اُداسیاں کیسی
یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو

مرنا چاہیں تو مرنہیں سکتے
تم بھی جینا محال کرتے ہو

کس کس کی مثال دوں تم کو
ہر ستم بےمثال کرتےہو 



Friday, 3 April 2020

Khud ko hi apni zaat ( I'm finding itself )

غزل

خُود کو ہی اپنی ذات میں ڈھونڈنے لگا ہوں میں
میں کون ہوں خُود سے ہی پوچھنے لگا ہوں میں

یوں ہی نہیں ہوتی ۔۔برباد زندگی
پا کر کسی کے پیار کو اب کھونے لگا ہوں میں

ہونے کو تو ہو جاتے ہیں ہر بار ہمارے
اب خود کو ہار کر اُس کا ہونے  لگا ہوں میں

ہنس ہنس کے گزاری تھی میری زندگی حسین تھی
ہنس ہنس کے ہزار بار اب رونے لگا ہوں میں

اب جا چکے ہیں منوّر اپنے دن بہار کے
خزاں کے خوف سے اب ٹوٹنے لگا ہوں میں

منوّر ظریف



Thursday, 2 April 2020

Lazim nahi Us ko mera kheyal ho ( It must not be thought )

غزل

لازم نہیں کہ اُس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے، وہی اُس کا بھی حال ہو

کچھ اور دِل گذاد ہوں اِس شہرِ سنگ میں
کچھ اور پُر ملال، ہوائے ملال ہو

باتیں تو ہوں کچھ تو دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہو

رہتے ہیں آج جس میں، جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ گذشتہ کا خواب وخیال ہو

سب شور شہر خاک کا ہے قرب آب سے
پانی نہ ہو تو شہر کا جینا مُحال ہو

معدوم ہوتی جاتی  ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اِس کی جیسے فنا کی مثال ہو

کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیرؔ
اِن روزوشب میں ایسا بھی اک دِن کمال ہو

منیرؔ نیازی


Zindgi Ki Kitaab ( Life Book)

زندگی کی کتاب میں خسارہ ہی خسارہ ہے ہر لمحہ ہر حساب میں  خسارہ ہی خسارہ ہے عبادت جو کرتے ہیں جنت کی چاہ میں اُ ن کے ہر ثواب میں خسارہ ...