Thursday, 2 April 2020

Lazim nahi Us ko mera kheyal ho ( It must not be thought )

غزل

لازم نہیں کہ اُس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے، وہی اُس کا بھی حال ہو

کچھ اور دِل گذاد ہوں اِس شہرِ سنگ میں
کچھ اور پُر ملال، ہوائے ملال ہو

باتیں تو ہوں کچھ تو دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہو

رہتے ہیں آج جس میں، جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ گذشتہ کا خواب وخیال ہو

سب شور شہر خاک کا ہے قرب آب سے
پانی نہ ہو تو شہر کا جینا مُحال ہو

معدوم ہوتی جاتی  ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اِس کی جیسے فنا کی مثال ہو

کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیرؔ
اِن روزوشب میں ایسا بھی اک دِن کمال ہو

منیرؔ نیازی


No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے