غزل
لازم نہیں کہ
اُس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے،
وہی اُس کا بھی حال ہو
کچھ اور دِل
گذاد ہوں اِس شہرِ سنگ میں
کچھ اور پُر
ملال، ہوائے ملال ہو
باتیں تو ہوں
کچھ تو دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے
کچھ تو جواب و سوال ہو
رہتے ہیں آج جس
میں، جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ
گذشتہ کا خواب وخیال ہو
سب شور شہر خاک
کا ہے قرب آب سے
پانی نہ ہو تو
شہر کا جینا مُحال ہو
معدوم ہوتی
جاتی ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اِس کی
جیسے فنا کی مثال ہو
کوئی خبر خوشی
کی کہیں سے ملے منیرؔ
اِن روزوشب میں
ایسا بھی اک دِن کمال ہو
منیرؔ نیازی
No comments:
Post a Comment