غزل
دُکھ جدائی کے
خواب ہو جائیں
درد سارے گلاب
ہو جائیں
آپ بیٹھیں جو
میرےپہلو میں
لوگ جل کر کباب
ہو جائیں
ایک پل کو جو دور تم جاوُ
اشک میرےکتاب ہو جائیں
میرے لب پر سوال
آیا ہے
تیری آنکھیں جواب
ہو جائیں
رابطے میں رہا
کرو تم بھی
نہ کہیں دِل
خراب ہو جائیں
جن پرندوں کو
اُڑنا آتا ہو
اُن پہ پنجرے
عذاب ہو جائیں
اُس کے ہاتھوں کے لمس سے اقراء
خاک ریزے گلاب
ہو جائیں
اقراء عالیہ
No comments:
Post a Comment