غزل
ختم اپنی چاہتوں
کا سلسلہ کیسے ہوا
تُو تو مجھ میں
جذب تھا مجھ سے جُدا کیسے ہوا
وہ تیرے اور
میرے درمیاں اِک بات تھی
آؤ سوچیں ذرا
شہر اِس سے آشنا کیسے ہوا
چُبھ گئیں سینے
میں ٹوٹی خواہشوں کی کرچیاں
کیا لکھوں دِل
ٹوٹنے کا حادثہ کیسے ہوا
جو رگِ جاں تھا
کبھی ملتا ہے اب رُخ پھیر کر
سوچتا ہوں اِس
قدر وہ بے وفا کیسے ہوا
No comments:
Post a Comment