غزل
ہم نے وطن کے
واسطے کیا، کیا نہیں کیا
اور آپ کہہ رہے
ہیں کہ کیا، کیا نہیں کیا
دھوکہ وفا کی
راہ میں کھائے ہیں ہم ضرور
لیکن کسی کے
ساتھ میں دھوکا نہیں کیا
ہم نے گذار دی
ہے فقیری میں زندگی
لیکن کبھی ضمیر
کا سودا نہیں کیا
دِل کو جلا کے
دی ہے زمانے کو روشنی
جگنو پکڑ کے ہم
نے اُجالا نہیں کیا
عیبوں کو میرے
ڈھانپ دیا آپ نے حضور
کیا بات ہے کہ
آپ نے چرچا نہیں کیا
اے دوست اور کیا
میں وفا کا ثبوت دوں
وعدہ وفا کیا
ہوں، وعدہ نہیں کیا
مہ خانہ پہ
کے لیا ہےاعجازؔ نے مگر
لیکن کبھی بھی
پی کے تماشا نہیں کیا
No comments:
Post a Comment