غزل
یہ جو میں ہوں
ذرا سا باقی ہوں
وہ جو تم تھے وہ
مر گئے مجھ میں
میرے اندر تھی
ایسی تاریکی
آ کے آسیب ڈر
گئے مجھ میں
میں نے چاہا تھا
زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر
گئے مجھ میں
پہلے اُترا میں
دِل کے دریا میں
پھر سمندر اُتر
گئے مجھ میں
کیسا خاکہ بنا
دیا مجھ کو
کون سا رنگ بھر
گئےمجھ میں
میں وہ پل تھا
جو کھا گیا صدیاں
سب زمانے گذر
گئے مجھ میں
بن کے دن یوں وہ
سامنے آئے
اور پھر رات کر گئے مجھ میں
No comments:
Post a Comment