غزل
اب تیری یاد سے
وحشت نہیں ہوتی مجھ کو
زخم کھلتے ہیں
تو اذیت نہیں ہوتی مجھ کو
اب کوئی
آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی
عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلا ہوں
تیرے شہر کا پانی پی کر
جُھوٹ بولوں تو
نِدامت نہیں ہوتی مجھ کو
ہے اما نت میں
خیانت سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو
حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
اتنا مصروف ہوں
جینے کی ہوس میں محسنؔ
سانس لینے کی
بھی فُرصت نہیں ہوتی مجھ کو
محسنؔ نقوی
No comments:
Post a Comment