غزل
میرے سِوا جسے
سب کچھ دکھائی دیتا ہے
سُنا ہے آج وہ
مجھ کو دُہائی دیتا ہے
وہ بات تک نہ
کرےمجھ سے غم نہیں مجھ کو
وہ دُشمنوں کو
مگر کیوں رَسائی دیتا ہے
میں روز کھڑکی
سے سنتا ہوں اُس کی آوازیں
نہ جانے رُوز وہ
کِس کو صفائی دیتا ہے
جسے قریب سے
دِکھتا نہیں میرا چہرہ
سُنا ہے دُور تک
اُس کو دکھائی دیتا ہے
وہی مڑوڑ کے رکھ
دے گا ایک دِن واصلؔ
تو جس کے ہاتھ
میں اپنی کلائی دیتا ہے
No comments:
Post a Comment