غزل
چمن میں جب بہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
یہ گل تو گل ہیں خا روں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
زمانے
سے نرالی ہے ہماری آبلہ پائی
چلیں
تو خار داروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
فقیرِ بے نوا مجھ سااَگر حق بات کہتا ہے
سُنا ہے تاجداروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
جو
بُجھ جاتے ہیں ٹکرا کر سدا میرے نشیمن سے
سُنا
ہے اُن شراروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
کسی محفل میں جب ذکرِوصالِ یارچِھڑتاہے
تو ہم فُرقت کے ماروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
کناروں
پر ڈبو دیتی ہیں جو مو جیں سفینوں کو
تو
پھر بے بس کناروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
شکؔیب ایسی ٹھنی ہے اب کےخاروں اور بہاروں میں
کھلیں جو گل تو خاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
ارشاد
احمد شکؔیب
No comments:
Post a Comment