غزل
نہیں عشق میں اِس کا تو رَنج ہمیں
اِ قرار
وشکیب ذرا نہ رہا
غمِ عشق تو اپنا رفیق رہا
کوئی اور
بلا سے رہا نہ رہا
نہ تھی حال کی ہمیں اپنے خبر
رہے دیکھتے
اوروں کےعیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پہ جونظر
تو نگاہ
میں کوئی بُرا نہ رہا
دیا اپنی خودی کوجو ہم نے اُٹھا
وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشیں
کوئی دُوسرا اِس کے سِوا نہ رہا
ظؔفر آدمی اُس کو نہ جانیے گا
ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جِسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی
جِسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
بہادر
شاہ ظفؔر
No comments:
Post a Comment